تنقید اور عملی کار روائی
ایک صاحب نے کہا کہ آپ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔ اس سے امت میں تفریق پیدا ہوتی ہے ۔ حالاں کہ آپ خود لکھ چکے ہیں کہ حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی میں جب بنی اسرائیل بچھڑے کو پوجنے لگے تو حضرت ہارون نے خاموشی اختیار کرلی ۔ تذکیر القرآن میں آپ نے لکھا ہے کہ بہت سے مواقع پر دین کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ باہمی لڑائی سے بچنے کے لیے خاموشی کا طریقہ اختیار کر لیاجائے ، حتیٰ کہ شرک جیسے معاملہ میں بھی (حصہ دوم صفحہ 87 )
میں نے کہا کہ آپ نے میری بات کو غلط صورت میں نقل کیا۔ میں نے جو بات لکھی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ہارون نے بنی اسرائیل کی گمراہی پر لسانی اظہار تو پوری طرح کیا، مگر جب وہ اصلاح قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے تو ان کے خلاف عملی کارروائی نہیں کی۔ گویا فکری تنقید تو ہر حال میں ضروری ہے ۔ البتہ عملی اقدام حالات کے لحاظ سے کیا جائے گا۔ متعلقہ آیات کے سلسلہ میں یہاں صفوة التفاسير (محمد علی الصابونی )سے دو حوالے نقل کیے جاتے ہیں :
( قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَكَادُوْا يَقْتُلُوْنَنِيْ) اَى إنَّ الْقَوْم اِسْتَذَلُّوني وَقَهَرُونِي وَقَارَبُوا قَتْلِى حِين نَهَيْتُهُمْ عَنْ ذَلِكَ فَإِنَّا لَمْ أُقَصِّرْ فِي نُصْحِهِمْ . ( المجلد الاول ، صفحہ 473) ہارون نے کہا کہ اے میری ماں کے بیٹے ، قوم نے مجھ کو دبالیا اور قریب تھا کہ مجھ کو مار ڈالیں۔ یعنی قوم نے مجھ کو کمزورسمجھا اور مجھ پر غالب آگئی اور میرے قتل کے قریب ہو گئی جب کہ میں نےان کو اس سے روکا۔ پس میں نے نصیحت میں کوتا ہی نہیں کی ۔
(اِنِّىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ) أَيْ إنِّي خِفْتُ أَنْ زَجَرْتُهُمْ بِالْقُوَّةِ أَنْ يَقَعَ قِتَال بَيْنَهُمْ .( المجلد الثانی ، صفحہ 245 )"مجھے ڈر تھا کہ تم کہو گے کہ تم نے بنی اسرائیل كے درمیان پھوٹ ڈال دی" یعنی مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں انھیں طاقت سے روکوں تو ان کے درمیان جنگ بر پا ہو جائے گی۔
تفریق ِامت سے بچنا ضروری ہے ، مگر اس کا اعتبار عملی احتساب میں کیا جائے گا نہ کہ نظری احتساب میں۔