ایک سفر
حلقہٴ الرسالہ کی دعوت پر ستنا اور ریوا کا سفر ہوا۔ یہ دونوں مدھیہ پردیش کے شہر ہیں۔ ستنا اس سے پہلے بگھیل کھنڈ کے لیے برطانیہ کے پولیٹکل ایجنٹ کا صدر مقام (1921 – 1871) تھا۔
ستنا ضلع میں ، شہر سے قریب ایک تاریخی گاؤں بھرہت (Bharhut) ہے۔ یہاں بدھوں کے ایک استو پا کے کھنڈرات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ابتداءً اشوک کے زمانہ میں 250 ق م میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے بعد دوسری صدی عیسوی میں اس کی مزید توسیع ہوئی۔ یہاں بہت سے کتبات ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں تاریخی مورتیاں اور سنگ تراشی کے نمونےپائے گئے ہیں جن میں سے کچھ الٰہ آباد کے میوزیم میں ہیں اور کچھ کلکتہ کے میوزیم میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔
یہ تاریخی استوپا صدیوں سے لا معلوم پڑا ہوا تھا، پہلی بار اس کو میجر جنرل الکزینڈر کننگھم (Alexander Cunningham) نے 1873 میں دریافت کیا ۔ موجودہ زمانہ میں ایشیائی قوموں کے تاریخی آثار اور علمی نوادر کا پتہ لگانےاور انھیں محفوظ کرنے کا کام زیادہ تر مغربی لوگوں نے کیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مغربی قوموں کے غلبہ کا راز ان کی یہی افادیت ہے نہ کہ محض ظلم۔ ظلم ِمحض کی بنیاد پر کبھی کوئی قوم غلبہ اور ترقی کا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔
ریوا تعلیم کے اعتبار سے ، ستنا سے آگے ہے ۔ سابق راجہ نے 1597 میں ریوا کو اپنی راجدھانی قرار دیا تھا۔ اس وقت سے ریوا کی اہمیت کافی بڑھ گئی ۔ 1968 میں یہاں پرتاپ سنگھ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ بندھو گڑھ میں 400 - 200ء کے زمانہ کے کتبات موجود ہیں ۔بگھیل راجپوتوں نے یہاں 1400 ء میں اپنی اسٹیٹ قائم کی تھی جو آزادی کے بعد ختم ہوگئی۔
27 مارچ1988 کی شام کو 150 آپ سے روانگی ہوئی ۔ یہ ٹرین نظام الدین اور جبلپور کے درمیان چلتی ہے۔ پہلے اس کا نام قطب اکسپرس تھا۔ حال میں اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ گاڑی وہی ہے ، مگر اب اس کا نام مہا کوشل اکسپرس ہے ۔ دوسرے ملکوں کے لوگ جانتے ہیں کہ اگر حقیقت کو بدلنا ہے تو انہیں خود حقیقت کو بدلنا پڑے گا۔ مگر ہندستان اور پاکستان کو یہ انوکھی خوش قسمتی حاصل ہے کہ یہاں حقیقت کو بدلنے کے لیے یہ کافی ہے کہ الفاظ بدل دیے جائیں۔ ہندستان میں ایک لفظ کے بدلنے سے "قطب اکسپرس " "مہا کوشل اکسپرس" ہو جاتی ہے۔ اور پاکستان میں معمولی لفظی تبدیلی سے "کرشن نگر " اچانک "اسلام نگر " بن جاتا ہے۔
تاہم زمانہ شاید اپنی سست رفتاری کی بنا پر ان ملکوں کی بلند پروازی کا ساتھ نہ دے سکا۔ ہندستان اور پاکستان الفاظ کے اعتبار سے اپنے ترقیاتی سفر کے آخری زینہ پر پہنچ چکے ہیں ، مگر واقعہ کے اعتبار سے دیکھئے تو ابھی وہ پہلے زینہ پر بھی اپنا قدم جمانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
مانک پورسے ٹرین آگے بڑھی تو 28 مارچ کا سورج نکل رہا تھا۔ صبح اور شام کی تقسیم زمین کی گردش سے پیدا ہوتی ہے۔ مگر بظاہر وہ سورج کی گردش سے پیدا ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چنانچہ بطلیموس (Ptolemy) سے لے کر کو پرنیکس (Copernicus) تک تقریباً دو ہزار سال ایسے گزرے ہیں کہ انسان اسی غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ صبح و شام کا فرق سورج کی گردش کا کرشمہ ہے۔ اس مثال کے ذریعہ شاید انسان کو یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ چیزوں کو ظاہری صورت (Face value) پر نہ لو بلکہ گہرائی تک جا کر اصل حقیقت معلوم کرو ۔ کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور ظاہر میں کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔
یہاں ریلوے لائن کے دونوں طرف دور تک کھلے ہوئے جنگل تھے۔ ان جنگلات میں کثرت سے ڈھاک کے درخت نظر آئے۔ ڈھاک ایک معمولی درخت ہے ۔ مگر اس کے پھول نہایت حسین ہوتے ہیں۔ لکڑی کے ٹھنٹھ جیسے تنہ پر لال رنگ کے حد درجہ خوش نما پھول لدے ہوئے تھے۔ یہ منظر گویا تقسیم ِخداوندی کی بے نیازی کو بتارہا تھا ۔ خدا چاہے تو لکڑی کے ایک ٹھنٹھ کو حسین پھولوں سے ڈھک دے، اور ایک بظاہر شاداب درخت کو بے پھول کر کے چھوڑ دے ۔ خدا کے یہاں انعامات کی تقسیم کا معیار اس سے مختلف ہے جو انسانوں نے اپنے درمیان رائج کر رکھا ہے ۔
میں نے جس روٹ پر سفر کیا، اس کی صورت کچھ اس طرح ہے کہ مانک پور تک ٹرین ایک رخ پر چلتی ہے ، اس کے بعد انجن آگے سے نکال کر پیچھے کی طرف جوڑ دیا جاتا ہے ، اور ٹرین انگریزی کے حرف وی (V) کی شکل میں الٹے رخ پر دوڑنے لگتی ہے ۔
مانک پور کے بعد جب ہماری گاڑی" پیچھے کی طرف" چلنے لگی تو اس کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ زندگی کے سفر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہر آدمی آگے کی طرف جانا چاہتا ہے۔ مگر اس دنیا کا نظام کچھ اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ یہاں کبھی آگے بڑھنے کے لیے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے ، جیت کو حاصل کر نےکے لیے ہار کو قبول کرنا پڑتا ہے ۔ کوئی ممتاز کام کرنے کے لیے گم نامی کی حیثیت پر راضی ہونا پڑتا ہے ۔ یہی اس دنیا کا قانون ہے۔ اس دنیا میں جو لوگ "پسپائی " پر راضی نہ ہوں وہ کبھی "اقدام " کی سعادت حاصل نہیں کر سکتے۔
پہلی بار میں غالباً 1961 میں ستنا آیا تھا۔ اس وقت میرے چھوٹے بھائی اے ۔ ایم خان انجینئر یہاں ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں پرنسپل تھے، میری والدہ ان کے ساتھ مقیم تھیں۔ والدہ سے ملاقات کے لیے میں نے رام پور سے ستنا کا سفر کیا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ روزانہ شام کو میں تنہا ٹہلنے کے لیے نکلتا تھا اور ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ دور تک چلا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ میرے چاروں طرف صرف قدرت کا ماحول میری ہمنوائی کے لیے باقی رہتا تھا۔ شہر کے باسیوں سے میں صرف الفاظ کی زبان میں بات کر سکتا تھا۔ مگر یہاں میرے قریب ایک ایسی دنیا ہوتی تھی جس سے الفاظ کے بغیر کلام ہوتا ہے ۔ اور جب مخاطب اور متکلم غیر ملفوظ کلام میں مشغول ہوں تو لذتِ کلام بے حساب گنا حد تک بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ ملفوظ کلام محدود ہوتا ہے اور غیر ملفوظ کلام غیر محدود ۔
اس علاقے کا اس سے پہلے میں ایک اور سفر کر چکا ہوں ۔ یہ سفر اصلاً سیونی کے جلسۂ سیرت میں شرکت کے لیے تھا۔ اس سلسلے میں میں ایک روز کے لیے جبل پور بھی ٹھہرا تھا۔ سیونی شہر 1774 میں آباد ہوا۔ جبل پور مدھیہ پردیش کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے ۔ 1781ء میں مرہٹوں نے جبل پور کو اپنا صدر مقام بنایا تھا ۔ یہاں پانچویں صدی کے بدھسٹ ، ہندو اور جین مذہب کے تاریخی آثار ہیں۔
اس سفر کا کوئی سفرنامہ لکھا نہیں جا سکا تھا۔ اب مجھے تاریخ کی تلاش ہوئی ۔ مگر اس کی تاریخ مجھے یا د نہیں تھی۔ پرانے کاغذات کو دیکھا تو اس میں اتفاق سے وہ پوسٹر مل گیا جس میں سیونی کے جلسہ ٔسیرت کے منتظمین نے میرے نام کے ساتھ جلسہ کا اعلان شائع کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیرت کا یہ جلسہ 14 - 16 فروری 1981 کو ہوا تھا۔ اس تجربے کے بعد اس پرانے مقولہ کی حکمت سمجھ میں آئی –––––– داشتہ آید بکار ۔
تحریر بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی عجیب نعمت ہے۔ تحریر کے ذریعہ یہ ممکن ہوا ہے کہ واقعات کو اس طرح منضبط کیا جاسکے کہ لمبی مدت گزرنے کے بعد بھی وہ عین اپنی سابقہ صورت میں محفوظ رہیں ۔ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم بالقلم کو انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ موجودہ زمانے میں قلم یا تحریر کے اس فن میں بے شمار ترقیاں ہو چکی ہیں، مگر عجیب بات ہے کہ قلم کے اعلیٰ استعمال میں سب سے پیچھے وہ لوگ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے دنیا کو قلم کی قوت کا راز بتایا تھا۔
سفر عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں، تفریح یا تجارت ۔ مگر تیسری زیادہ اہم قسم اس میں چھوٹ گئی ہے۔ اور وہ ہے عبرت۔ اسلامی سفر وہ ہے جو عبرت کا سفر ہو ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اسی اعلان کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے کہ وہ عبرت حاصل کرنے کے لیے باہر جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی عبرت پذیری کے ذہن کے تحت سفر کرے تاکہ ہر سفر اس کے لیے سبق کا ذریعہ بن جائے۔
اصل یہ ہے کہ سفرانسانی شخصیت کی تو سیع ہے۔ ایک شخص جو اپنے گھر پر نظر عبرت کے ساتھ رہ رہا ہو ، جب وہ باہر نکلے گا تو اس کا سابقہ ذہن وہاں بھی کام کرتا رہے گا۔ اسی طرح جو شخص مفاد پرست ہو ، اس کا سفر بھی اس کے لیے مفادات کی تلاش کے ہم معنی ہو جائے گا۔ ایک بیرونی سفر میں میں نے ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ اخبار والوں کو تلاش کرتے پھر رہے تھے تاکہ وہاں پہنچنے کے ساتھ اپنی آمد کی خبر اور اپنا انٹرویو چھپوا کر مقامی طور پر متعارف ہو سکیں۔ یہی موجودہ زمانے میں بیشتر لوگوں کا حال ہے ، کچھ لوگ نام و نمود کے اس ذاتی شوق کی تسکین برہنہ انداز میں کرتے ہیں اور کچھ لوگ پردہ داری کے ساتھ اسے انجام دیتے ہیں۔
عام طور پر سفر میں میں اس طرح نکلتا ہوں کہ میرے ساتھ ایک چھوٹے سے بیگ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ، حتیٰ کہ ایک گلاس بھی نہیں ۔ ایک بار میں کسی سفر پر نکلا تو اتفاق سے میرے ساتھ ایک چھوٹا لوٹا بھی تھا۔ مزید اتفاق یہ کہ یہ لوٹا بغیر ٹوٹی والا تھا۔ ایک مسلمان بزرگ نے اس کو دیکھ کر کہا: اس قسم کا لوٹا ہندو تہذیب کی علامت ہے ، آپ مسلمان ہیں ، آپ کو ٹوٹی دار لوٹا اپنے ساتھ رکھناچاہیے۔
مسلمان پچھلے سو برس سے اسی قسم کے جھگڑوں میں مشغول ہیں۔ اور اس کو تہذیبی شناخت (Cultural identity) کا خوبصورت نام دیے ہوے ہیں۔ مسلم قائدین اس معاملہ میں اس انتہا پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ تہذیبی شناخت کے نام پر حکومت کے خلاف مطالباتی مہم چلا رہے ہیں ۔ حالاں کہ تہذیبی شناخت کسی گروہ کی اندرونی حالت کا اظہار ہے ، وہ خارجی مطالبہ سے حاصل کی جانے والی چیز نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کی پہچان اس قسم کی تہذیبی پہچان نہیں۔ مسلمان کی اصل پہچان اخلاقی پہچان ہے۔ مسلمان اپنے کر دار سے پہچانا جاتا ہے نہ کہ خارجی علامتوں سے ۔ قدیم مکہ میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب داڑھی رکھتے تھے اور پگڑی اور تہمد پہنتے تھے۔ عین یہی طریقہ وہاں غیرمسلموں کا بھی تھا۔ رسول اللہ نے ایسا نہیں کیا کہ غیر مسلموں سے الگ اپنی "تہذیب " مقرر کریں۔ آپ نے مسلمانوں کے لیے جس امتیازی شناخت کی تلقین کی وہ یہ تھی کہ وہ ایک خدا کے پرستار بنیں ۔ خوشی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں حق پر قائم رہیں۔ جو کچھ اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کریں ۔ دوسروں کے لیے ان کے دل میں سلامتی اور خیر خواہی کا جذبہ ہو نہ کہ بغض اور حسد اور انتقام کا ۔ مسلمان اگر یہ" پہچان" کھو دیں تو دوسری کسی پہچان کا چیمپیئن بننا انھیں خداکی نظر میں محبوب نہیں بنا سکتا۔
شام کو 4 بجے ٹرین مجھ کو لے کر دہلی سے روانہ ہوئی ۔ رات بھر چلنے کے بعد اگلے دن 6 بجے ستنا کا اسٹیشن سامنے تھا۔ اب سفر کی مدت پوری ہو چکی تھی۔ دروازہ کھلا اور میں ٹرین سے باہر نکل کر" دوسری دنیا " میں آگیا۔
تکمیل سفر کا یہ تجربہ میرے ذہن میں تکمیل عمر کا تجربہ بن گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرا سفر حیات آخری مرحلہ میں پہنچ گیا ہو اور میں دنیا سے نکل کر آخرت کے عالم میں داخل ہو رہا ہوں۔
یہ لمحہ ہر آدمی پر آنے والا ہے ۔ دنیا کا سفر شاید اسی لیے کرایا جاتا ہے کہ آدمی آخرت کے اصل سفر کو یاد کرے ، وہ عارضی واقعہ میں مستقل واقعہ کی تصویر دیکھ لے ، اور آخرت سے دوچارہونے سے پہلے آخرت کی تیاری کرلے۔
ستنا میں میرا قیام جناب اقبال احمد صاحب ایم اے کے یہاں تھا۔
ستنا سے مجھے ریوا جانا تھا۔ یہ سفر روڈ کے ذریعہ طے ہوا ۔ ہمارے ایک نوجوان ساتھی گاڑی چلا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سڑک پر جب سامنے سے کوئی گاڑی آتی ہے تو وہ اپنی گاڑی سائیڈ میں کرلیتے ہیں۔ ایک طرف سے سامنے والی گاڑی گزر جاتی ہے اور دوسری طرف سے ہماری گاڑی۔ یہ واقعہ ملک کی سڑکوں پر ہر روز کروروں بار پیش آتا ہے اور بے شمار لوگ اس کو دیکھتے ہیں ۔ مگر ہر آدمی اس کو" ٹریفک" کا ایک واقعہ سمجھتا ہے۔ کوئی شخص اس کو وسیع تر زندگی سے نہیں جوڑتا۔ حالاں کہ اس دنیا میں جو ٹریفک کا اصول ہے وہی زندگی کا اصول بھی ہے۔ اس دنیا میں دوسرے کو راستہ دینا پڑتا ہے اس کے بعد ہی اپنے لیے راستہ ملتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کوراستہ دینے پر راضی نہ ہوں ، ان کے لیے اپنا راستہ پانا بھی مقدر نہیں۔
ریوا میں میرا قیام جناب نعیم الدین صاحب منیہار کے یہاں تھا ۔ گاڑی قیام گاہ پر رکی ۔ میں با ہر نکلا تو عین اسی وقت سڑک پر دو ہندو نوجوان سائیکل سوار وہاں آگئے ۔ انھوں نے فوراً اپنی سائیکل روک دی، اور نرمی سے کہا "سر ، تھوڑا سائڈ " یہ ریوا کے انسان سے میرا پہلا تعارف تھا۔ یہاں ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات نہایت اچھے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ یہاں وہ فرقہ وارنہ مسائل نہیں جو یوپی جیسے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
اس فرق پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ اس کی اصل جڑمسلم بادشاہوں کی تاریخ ہے۔ جو علاقے مسلم بادشاہت کے مرکز تھے ، جہاں ان کی یادگاریں ہیں ، جہاں ان کے دور کی روایتیں موجود ہیں ، وہاں کے مسلمانوں کے ذہن ابھی تک اسی "شاندار ماضی " میں اٹکے ہوتے ہیں۔ ان علاقوں کے حالات مسلمانوں کے اندر"پدرم سلطان بود " کی نفسیات کو زندہ رکھتے ہیں۔ اور یہی اس علاقہ کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے۔ چنانچہ جن علاقوں میں اس نفسیات کے اسباب نہیں ہیں، وہاں کے مسلمانوں کے لیے کوئی مسئلہ بھی نہیں۔
ریوا کے جنگلات کسی زمانے میں شیر کے لیے مشہور تھے۔ دہلی کے چڑیا گھر کا سفید شیر اسی ریوا کے جنگل سے حاصل کیا گیا تھا۔ 1951 میں ریوا کے جنگل میں ایک سفید شیر پکڑا گیا ۔ یہ 9 ماہ کا بچہ تھا۔اس کا نام "موہن " رکھا گیا۔ اور راجہ کے محل میں اس کی پرورش ہوئی۔ بڑا ہونے کے بعد 1955 میں ایک عام رنگ کی شیرنی سے اس کا جوڑا ملایا گیا۔ اس کے نتیجے میں چار بچے پیدا ہوئے مگر وہ سب عام شیروں جیسے تھے۔ اس کے بعد دوبارہ ان میں سے ایک شیرنی کا اور موہن کا جوڑا ملایا گیا۔ اس تعلق کے بعد 1958 میں چار بچے پیدا ہوئے اور یہ چاروں سفید تھے ––––– یہ گویا قدرت کاسبق ہے کہ پہلی کوشش میں اگر تمہیں کامیابی نہ ہو تب بھی تم کو نا امید نہ ہونا چاہیے۔
سفید شیر بہت نا در قسم ہے۔ ساری دنیا میں اس وقت تقریباً 70 سفید شیر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے 25 شیر صرف ہندستان میں ہیں۔ سفید شیر عادات و خصائل کے اعتبار سے دوسرےشیروں جیسا ہی ہوتا ہے۔
شیر دودھ والے جانوروں کا شکا ر کر کے کھاتا ہے ۔ وہ بھیڑیا اور سانپ جیسے جانوروں کو نہیں کھاتا۔ تا ہم اس معاملے میں بھی وہ ایک فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھتا ہے۔ اگر آپ شیر کے بارے میں کوئی کتاب پڑھیں تو شیر کا عالم آپ کو بتائے گا کہ شیر انھیں جانوروں پر حملہ کرتا ہے جن کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ ان پر قابو پاسکتا ہے ۔ بڑے جانور ، جیسے ہاتھی ، جنگلی بھینسا وغیرہ پر حملہ کرنے سے وہ عام طور پر احتراز کرتا ہے:
Healthy large mammals are generally avoided (IX/1004).
یہ شیر کا طریقہ ہے جو خدا کی فطرت گاہ میں تربیت پا کر نکلتا ہے۔ انسان کو خدا نے آزاد کر کے اسے عقل دیدی کہ وہ خود اپنے فیصلہ سے صحیح طرز عمل اختیار کرے۔ مگر انسان کمزور ہونے کے باوجود اپنے سے طاقت ور پر حملہ کرتا ہے۔ اور پھر جب لازمی نتیجے کے طور پر بر باد ہوتا ہے تو دوسرا جرم یہ کرتا ہے کہ اپنی حماقت کا اعلان کرنے کے بجائے دوسروں کے ظلم اور سازش کا انکشاف کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔
ریوا میں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں سے ایک پر فیسر اختر حسین نظامی ہیں۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تاریخ میں ایم اے کیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ 1927 سے 1935 تک علی گڑھ میں رہے ہیں۔ یہ سرسید کے پوتے راس مسعود کا زمانہ تھا ۔ انھوں نے بتایا کہ راس مسعود جس زمانے میں پیدا ہوئے اس وقت علی گڑھ میں ایک انگریز کلکٹر مسٹرر اس (Ross) تھا۔ مسٹر راس کا نام مسعود میں جوڑ کر راس مسعود بنایا گیا۔ راس انگریز سے راس مسعود کے والد (سید محمود) کی دوستی تھی۔ اس انگریز افسر نے سید محمود سے کہا کہ تم اپنے لڑکے کے نام کے ساتھ میرا نام"راس " جوڑ دو تو یہ ہماری دوستی کا مستقل نشان ہو گا۔ چنانچہ مسعود کو راس مسعود کہا جانے لگا۔
دور جدید کی تاریخ میں صرف ایک ہی قابل ذکر مسلمان ہیں جنھوں نے جدید مغرب کی اہمیت کو محسوس کیا اور مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ۔ اور وہ سرسید ہیں ۔ مگر سر سید گروپ کی پہنچ صرف مغرب کی تہذیبی تقلید تک ہوسکی ، وہ مغرب کی سائنسی تقلید کی اہمیت کو نہ سمجھے سکے۔ تاہم پہلے شخص کی حیثیت سے سرسید کا گروہ قابل معافی ہو سکتا ہے۔ اگر ان کے بعد کوئی دوسرا شخص مسلمانوں میں اٹھتا جو مغربی سائنس کی اہمیت کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرتا تو ابتدائی کمی کی تلافی ہو جاتی مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ اور مسلمان دور جدید میں دوسری قوموں سے کم از کم سو سال پیچھے ہو گئے۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے قانون میں اعلیٰ ڈگری لی ہے ۔ اس کے بعد وہ پریکٹس کرنے والے تھے۔ اس درمیان میں انھیں الرسالہ اور دوسری کتا بیں مل گئیں ۔ انھوں نے ان کا مطالعہ کیا تو وہ بالکل بدل گئے ۔ انھوں نے طے کیا کہ اب وہ پر یکٹس کرنے کے بجائے"اسلامی قانون اور انسانی قانون" پر ریسرچ کریں گے ۔ اور قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر اس میدان میں دین کی خدمت کریں گے۔ چنانچہ وہ اس میدان میں سرگرم ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ بزرگ میرے قیام کے دوران بار بار آتے رہے اور ہر مجلس میں شریک رہے انھوں نے کہا کہ میرا مسلک یہ ہے کہ میں ہر عالم کی عزت کرتا ہوں اور اسی جذبہ کے تحت آپ کی مجلسوں میں بھی شرکت کرتا رہا ہوں۔ میرا قول ہے کہ لا نفرق بین أحد من العلماء ( ہم ایک عالم اور دوسرے عالم کے درمیان فرق نہیں کرتے)
28 مارچ کو نماز ظہر کے بعد بچھیا کی مسجد میں اجتماع تھا۔ اس موقع پر میں نے "اللہ اکبر "کی تشریح کی۔ میں نے کہا کہ یہ لفظ جو روزانہ نمازوں میں بار بار دہرایا جاتا ہے ، اس کو آجکل کے مسلمانوں نے ایک قسم کا نعرہ بنا لیا ہے جسکو وہ اپنے قومی جھگڑوں اور لڑائیوں میں دوسروں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ حالاں کہ "اللہ اکبر" نعرۂ احتساب ہے نہ کہ نعرۂ جنگ ۔ اللہ اکبر کا پیغام یہ ہے کہ خدا بڑا ہے ، اس لیے مجھے چھو ٹا بن کر دنیا میں رہنا ہے۔ مگر مسلمانوں نے اس کا مطلب یہ سمجھ رکھا ہے کہ خدا بڑا ہے ، اس لیے مجھے دوسروں کو چھوٹا بنانا ہے۔ جو لفظ حقیقتاً احتساب ِخویش کا عنوان تھا اس کو مسلمانوں نے احتساب ِغیر کا عنوان بنا دیا۔ اس قسم کی تبدیلی صرف فساد پیدا کرتی ہے ، وہ کسی بھی درجہ میں کوئی اصلاح پیدا نہیں کرتی۔ اس بات کو میں نے مختلف مثالوں کے ذریعہ واضح کیا۔
28 مارچ کی شام کو وینکٹ بھون میں پروگرام تھا۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم تعلیم یافتہ لوگ شریک تھے ۔ یہ ہال راجہ وینکٹ رمن سنگھ کا بنوایا ہوا ہے جو موجودہ راجہ مارتنڈ سنگھ (ایم پی ) کے والد تھے ۔ اس ہال کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں چار شیر بھس بھرے ہوئے (Stuffed) رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں میری تقریر کا موضوع "اسلام اور انسانی برابری" تھا ۔ اس میں قرآن و حدیث کی تعلیمات بتائی گئیں اور ان کو مختلف مثالوں سے واضح کیا گیا۔ ایک بنیادی بات میں نے یہ کہی کہ انسانوں کے درمیان ہمیشہ فرق ہوتا ہے ، کوئی بڑا ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا ، کوئی طاقتور ہوتا ہے اور کوئی کمزور ۔ اسی سے نابرابری کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اس نوعیت کی نابرابری سماج میں ہمیشہ باقی رہے گی ۔ انسانوں کی کاٹ چھانٹ کر کے آپ انھیں برابر نہیں کر سکتے ، جیسا کہ کمیونزم نے ناکام طور پر کرنے کی کوشش کی۔
انسانوں کے درمیان برابری قائم کرنے کی عملی صورت صرف یہ ہے کہ ان کے درمیان ایسی ہستی کو کھڑا کر دیا جائے جس کے آگے سب اپنے کو چھوٹا محسوس کرنے لگیں ۔ خدائے برتر کا عقیدہ یہی کام کرتا ہے ۔ کسی سماج میں اگر خدا کی بڑائی زندہ عقیدہ کے طور پر آجائے تو وہاں اپنے آپ برابری اور مساوات کا ماحول قائم ہو جائے گا۔ کیوں کہ انسان آپس میں ایک دوسرے سے بڑے ہیں ، مگر خداکے مقابلے میں کوئی بڑا نہیں۔
میں نے کہا کہ اس ہال میں چار مردہ شیر موجود ہیں ۔ مگر موجودہ حالت میں وہ ہمارے اندر ہلچل پیدا نہیں کرتے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ چار زندہ شیر یہاں داخل ہو کر دھاڑنے لگیں تو معاملہ بالکل دوسرا ہو گا۔ آپس میں لوگ نا برابر ہیں ، مگر زندہ شیر کے مقابلہ میں تمام لوگ برابر ۔ ایک لطیفہ ہے کہ کچھ اونٹ آپس میں بحث کر رہے تھے کہ کون زیادہ اونچا ہے ۔ چوں کہ ہر ایک میں تھوڑ ا تھوڑا فرق تھا۔ اس لیے فیصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ کسی نے ان اونٹوں کو لے جا کر پہاڑ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ اب سب اونٹ چپ ہو گئے ، کیوں کہ جہاں پہاڑ آجائے وہاں کوئی اونٹ بڑا نہیں رہ جاتا۔
جب شیر اور پہاڑ لوگوں کے اونچ نیچ کو ختم کر دیتے ہیں تو وہ خدا جو تمام شیروں کا اور تمام پہاڑوں کا خالق ہے ، اس کی موجودگی کا احساس لوگوں کو کتنا زیادہ متاثر کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نابرابری کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسانوں کو ان کے خدا کے سامنے کھڑا کر دیا جائے۔
ریوا سے ستنا کے لیے واپسی بذریعۂ روڈ ہوئی ۔ ہماری گاڑی کے ڈرائیور گلاب خاں ( پیدائش 1926) تھے۔ وہ ستنا کے رہنے والے ہیں۔ اور پچھلے 45 سال سے ڈرائیوری کا کام کرتے رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے تجربہ کی روشنی میں بتائیے کہ گاڑی میں ایکسیڈنٹ سے بچنے کی ترکیب کیا ہے۔ انھوں نے کہا :
"آگے کی پوزیشن کو دیکھ کر اپنے کو کنٹرول کرنا چاہیے "۔
اس میں شک نہیں کہ سڑک کی سواری کے لیے محفوظ سفر کا واحد راز یہی ہے ۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ زندگی کے وسیع تر سفر کو محفوظ اور کامیاب سفر بنانے کا راز بھی یہی ہے ۔ کوئی شخص دنیا میں اکیلا نہیں ہے۔ جس طرح وہ خود زندگی کی دوڑ میں ہے ، اسی طرح دوسرے لوگ بھی زندگی کی دوڑ لگا رہے ہیں۔ ایسی حالت میں دوسروں کی دوڑ سے سابقہ پیش آنا لازمی ہے۔ اس دو طرفہ دوڑ میں وہی شخص حادثہ سے بچ سکتا ہے جو سامنے والے کو دیکھ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔
ستنا کا ایک بڑا محلہ نذیر آباد کہا جاتا ہے۔ اس محلہ کے ساتھ ایک تاریخ وابستہ ہے جس میں بہت بڑا سبق ہے۔
محلہ کا یہ نام حاجی نذیر احمد مرحوم (1960 – 1875) کے نام پر ہے۔ وہ یہاں کے بڑے زمیندار تھے۔ انھوں نے اسٹیشن کے قریب تقریباً پندرہ ایکڑ زمین لوگوں کو مکان بنانے کے لیے مفت دے دی۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے یہاں مکانات بنائے ، جن میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی ۔ تا ہم اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ ان بسنے والوں نے معطی کے اعتراف کے طور پر محلہ کا نام نذیر آبادرکھ دیا۔
ستنا کی توسیع وترقی کے ساتھ یہ جگہ اہم ہوتی گئی ۔چنانچہ کچھ فرقہ پرست ہندوؤں نے یہ تحریک چلائی کہ اس بستی کا نام نذیر آباد کے بجائے مالویہ نگر رکھ دیا جائے۔ انھوں نے اپنے گھروں اور دکانوں پر مالویہ گر کے بورڈ لگائے۔ خطوط کے پتہ میں مالویہ نگر لکھنا شروع کیا۔ حتی ٰکہ مالو یہ نگر کے نام سے یہاں ایک چھوٹا سا ڈاک خانہ کھلوا دیا۔ مگر ان کی ساری کوششوں کے باوجود یہ نام مشہور نہ ہو سکا۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ایک بار وہ ستنا کے دھرم شالہ میں گئے۔ وہاں ایک شخص باہر سے آیا تھا۔ اس کے پاس "مالو یہ نگر " کا پتہ تھا۔ مگر دھرم شالہ میں کوئی شخص اس کو یہ بتانے والا نہیں ملاکہ "مالویہ نگر" کہاں ہے۔ یہی حال اکثر ان خطوط کا ہوتا تھا جس پر مالویہ نگر لکھا ہوا ہوتا تھا۔ غرض فرقہ پرست افراد کی ساری کوششوں کے با وجود مالو یہ نگر کانام رائج نہ ہو سکا۔ اور نذیر آباد بدستور نذیر آباد ہی بنا رہا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ "مالو یہ نگر کے حامیوں کے پاس صرف تعصب تھا۔ اس کے مقابلہ میں " نذیر آباد کے حامیوں کے پاس حقیقت تھی۔ اور جب تعصب اور حقیقت میں ٹکراؤ ہو تو حقیقت باقی رہتی ہے نہ کہ تعصب ۔
ستنا کا نام ریونیور یکارڈ میں رگھو راج نگر لکھا ہوا ہے ۔ رگھو راج سنگھ یہاں کے راجہ تھے ان کے نام پر راجگان نے اس کا نام رگھو راج نگر رکھا تھا۔ مگر ستنا ریلوے اسٹیشن کا نام چونکہ ستنا تھااس لیے عوام میں "ستنا " کا لفظ ہی جاری رہا، اور رگھو راج نگر جاری نہ ہو سکا۔
دوسری برعکس مثال مذکورہ بالا محلہ نذیر آباد کی ہے۔ بسانے والے مسلمان کے نام پر اس کانام نذیر آباد ہے ۔ یہاں کے فرقہ پرست عناصر نے اس کا نام "مالو یہ نگر "رکھا اور ہرقسم کی کوشش کی کہ اس کا نام مالویہ نگر مشہور ہو جائے۔ مگر ساری کوشش کے باوجود نذیر آباد نذیر آباد ہی رہا ، وہ مالو یہ نگر نہ ہو سکا۔
زندگی میں جو چیز فیصلہ کن بنتی ہے وہ تعصب نہیں ، حقیقت ہے۔ حقیقت باقی رہتی ہے،اور تعصب گرد و غبار بن کر فضا میں اڑ جاتا ہے۔ حقائق اگر "رگھوراج نگر" کے حق میں نہ ہوں بلکہ "ستنا" کے حق میں ہوں تو ستنا چل جائے گا، رگھو راج نگر نہیں چلے گا۔ اسی طرح حقائق اگر " نذیر آباد "کے حق میں ہوں ، "مالو یہ نگر " کے حق میں نہ ہوں ، تو نذیر آباد چل جائے گا اور مالویہ نگر فضا میں گم ہو کر رہ جائے گا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حقائق کو اپنے موافق بنائے، کیوں کہ بالآخر جو چیز باقی رہتی ہے وہ حقائق ہیں نہ کہ تعصب اور ظلم۔
ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ستنا سے جبل پور کے لیے بذریعۂ کار روانہ ہوئے ، ان کے پاس چار" الرسالہ کیسٹ " تھے۔ راستہ میں وہ ایک کے بعد ایک کیسٹ لگاتے گئے۔ اور راستہ چلتے ہوئے تمام کیسٹ سن لیا۔ ان کے ساتھ ایک وکیل صاحب بھی سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے پہلی بار یہ کیسٹ سنا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کیسٹ تو اتنے اثر انگیز تھے کہ پورا راستہ طے ہو گیا اور سفر کا اندازہ ہی نہیں ہوا ۔ وہ اس کی فکر سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے اور الرسالہ کےمستقل قاری بن گئے۔
آجکل کے مشغول انسان کے لیے آڈیو کیسٹ دعوت کا نہایت کار آمد ذریعہ ہے۔ میری مشغولیت کی وجہ سے الرسالہ کیسٹ کا سلسلہ ایک عرصہ سے بند تھا۔ اب خیال ہو رہا ہے کہ اس کو دوبارہ جاری کر دینا چاہیے۔
ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی خدا کے فضل سے الرسالہ کافی پھیلا ہے ۔ جو شخص ایک بار الرسالہ پڑھ لیتا ہے ، وہ خود ہی اس کا مبلغ بن جاتا ہے اور اس کو اپنے ماحول میں پھیلانا شروع کر دیتا ہے ۔ ستنا کی ایک مسجد میں تذکیر القرآن مسلسل پڑھ کر سنائی جارہی ہے۔ یہاں بہت سے غیر مسلم حضرات بھی الرسالہ اور کتا بیں پڑھ رہے ہیں ۔ مثلاً ٹھا کر لال بکرم جیت سنگھ کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ دلچسپی کے ساتھ "پیغمبر انقلاب "کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔ پروفیسر کلیم احمد خاں صاحب نے اسلامی مرکز کی تمام چھوٹی بڑی کتا بیں منگوا کر مجلد کرا لی ہیں اور منظم طریقہ سے انہیں دوسروں کو پڑھا رہے ہیں ۔ وغیرہ ، وغیرہ ۔
ستنا میں ایک صاحب نے میری گفتگو سننے کے بعد کہا کہ آپ صبر اور اعراض کی تلقین کرتے ہیں۔ حالاں کہ لقمان حکیم کا قول ہے کہ" اتنے میٹھے نہ بنو کہ لوگ تم کو ہڑپ کر جائیں اور نہ اتنے کڑوے بنو کہ لوگ تمہیں تھوک دیں" ۔ اسی طرح ایک اور صاحب نے کہا کہ آپ ایڈ جسٹمنٹ کی باتیں کرتے ہیں حالاں کہ اقبال نے کہا ہے :
زمانہ با تو نسازد تو باز ما نہ ستیز
میں نے کہا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں ، قرآن و حدیث کے حوالہ سے کہتا ہوں ، اور آپ لوگ اس کے جواب میں مقولہ اور شعر پیش کر رہے ہیں ۔ جب کوئی بات قرآن و حدیث کے حوالے سے کہی جائے تو آدمی کو چاہیے کہ اس کے جواب میں قرآن وحدیث پیش کرے۔ اور اگر اس کے پاس قرآن و حدیث نہ ہو توچپ رہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس نے بعد کے زمانےمیں ایک بار کسی مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول لوگوں کو سنایا۔ انھوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ابوبکر وعمر نے تو ایسا اور ایسا کہا ہے۔ اس پرحضرت عبد اللہ بن عباس غضب ناک ہو گئے۔ انھوں نے فرمایا : قریب ہے کہ تمہارے اوپرآسمان سے پتھر برسیں۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، اور تم کہتے ہو کہ ابوبکر وعمر نے کہا ۔فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُوشِكُ أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْكُمْ حِجَارَةٌ مِنْ السَّمَاءِ أَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَتَقُولُونَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ؟!( رفع الملام عن الأئمة الأعلام ،ص37)
ایک صاحب نے کہا کہ آجکل اردو اخباروں اور رسالوں میں آپ کے خلاف لکھا جا رہا ہے، مگر آپ ان کا جواب نہیں دیتے۔ میں نے کہا کہ اگر کوئی شخص واقعی معنوں میں دینی یا علمی تنقید پیش کرے تو ہم ضرور اس کے بارے میں لکھیں گے۔ مگر آجکل جو تحریریں ہمارے خلاف چھپ رہی ہیں ان میں کوئی دینی یا علمی دلیل نہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ سب لغو تحریریں ہیں اور لغو بات کے سلسلے میں ہمیں اعراض کرنے اور در گذر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ( المؤمنون: 3 ، الفرقان: 72)
سورہ القصص (55) میں اہل ایمان کی ایک جماعت کا ذکر ہے ۔ کچھ لوگوں نے ان کے دین کا مذاق اڑایا ، اور ان کے ساتھ جہالت کی ۔ انھوں نے اس کا براہ راست جواب نہیں دیا۔ بلکہ یہ کہہ کر ان سے الگ ہو گئے کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ۔ تم کو سلام ، ہم بے سمجھ لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔
میں نے ان مخالفانہ تحریروں کو پڑھا تا کہ ان میں اگر واقعی کوئی بات ہو تو اس کی وضاحت کی جائے ۔ مگر میں نے پایا کہ یہ تمام تحریریں بالکل غیر سنجیدہ ہیں ۔ ان میں استہزاء ، بے بنیاد الزام اور لفظی سبّ وشتم کے سوا اور کچھ نہیں۔ پھر ایسی لغو باتوں کا کیا جواب دیا جائے ۔ اس قسم کے لغوکلام سے تو صرف اعراض ہی کیا جا سکتا ہے۔
مدھیہ پردیش ایک ہندی ریاست ہے۔ یہاں 95 فی صد لوگ ہندی ہی میں لکھتے پڑھتے ہیں۔ اس بنا پر یہاں کے لوگوں نے شدت سے مطالبہ کیا کہ الرسالہ کا ہندی اڈیشن جاری کیا جائے۔ اس سلسلے میں مزید بات یہ سامنے آئی کہ الرسالہ کا ہندی ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ صرف یہ کیا جائے کہ اردو الرسالہ ہی کو ہندی رسم الخط میں شائع کیا جائے۔
یہ بات مجھے بہت درست معلوم ہوتی ہے۔ میں نے ہندوؤں اور مسلمانوں سے ملاقاتوں کے دوران محسوس کیا کہ یہ لوگ خواہ اردو کو پڑھ نہ سکیں مگر وہ کم از کم آسان اردو کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً بار ایسوسی ایشن کے اجتماع ( 29 مارچ ) میں 99 فی صد ہندو صاحبان تھے اور سارا ہال پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ مگر میری اردو تقریر کو ہر آدمی نے پوری طرح سمجھا۔ اسی طرح دوسرے اجتماعات میں بھی ہندو صاحبان اور ہندی داں لوگ تھے ، مگر کسی ایک شخص نے بھی یہ شکایت نہیں کی کہ آپ کی زبان سمجھ میں نہیں آئی۔
ان حالات کی روشنی میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ موجودہ اردو الرسالہ ہی کو رسم الخط بدل کرہندی میں شائع کیا جائے۔ ان شاء اللہ اس پر جلد عمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو اسلام کی سیاسی تعبیر سے متاثر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو سیاسی اور اجتماعی اعتبار سے غالب کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا پروگرام ہے۔ کیوں کہ آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان غلبۂ کفر کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ مفروضہ بجائے خود غلط ہے۔ اس ملک میں "کفر " کا اقتدار نہیں ہے بلکہ" سیکولرزم " کا اقتدار ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہاں غلبۂ کفر کی حالت نہیں ہے بلکہ غلبۂ نا طرف داری کی حالت ہے۔ یہ صورت حال عین ہمارے حق میں ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کو ہمیں بھر پور طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
29 مارچ کی دو پہر کو محمد یہ احسانیہ ہائر سکنڈری اسکول (ستنا) میں پروگرام تھا۔ شہر کے مسلم اہل فکر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات اکھٹا ہوئے ۔ اس موقع پر علم کی اہمیت پر گفتگو کی گئی۔ میں نے بتایا کہ علم کا تعلق سروس سے محض ثانوی ہے ۔ علم بذاتِ خود مطلوب ہے۔ علم سے ذہن وسیع ہوتا ہے۔ آدمی دین کا اور تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے اور اس طرح اس قابل بنتا ہے کہ زیادہ گہری واقفیت کے ساتھ زندگی کی منصوبہ بندی کر سکے ۔ اس بات کو تاریخ کی مثالوں سے واضح کیا گیا۔
نذیر آباد (ستنا)کی مسجد میں30 مارچ کو نمازفجرکے بعد درس تھا۔ قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں دین میں شکر کی اہمیت بتائی گئی اور یہ بتایا گیا کہ دوزخ اور جنت کیا ہے ، اور کس قدرضروری ہے کہ آدمی دوزخ سے بھاگے اور جنت کا حریص بنے۔
29 مارچ کو دن میں 2 بجے ستنا کے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں پروگرام تھا۔ پورا ہال وکیل صاحبان سے بھرا ہوا تھا۔ ڈسٹرکٹ جج اور مجسٹریٹ صاحبان بھی موجود تھے۔
میں نے تقریر شروع کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کیا۔ دہلی میں میری ملاقات ایک وکیل صاحب سے ہوئی۔ وہ فوج داری میں وکالت کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ ہم لوگ پورا مقدمہ ایف آئی آر (F.I.R) پر چلاتے ہیں۔ ہم اس کھوج میں نہیں پڑتے کہ واقعہ کی اصلیت کیا ہے۔ اگر وکیل واقعہ کی اصلیت کو دیکھے تو پھر اس کا ٹائر پنکچر ہو جائے گا۔
میں نے کہا کہ آپ لوگ قانون داں ہیں ۔ آپ معاملہ کے لیگل پہلو کو دیکھتے ہیں۔ مگرا سلام معاملہ کے اسپر یچول پہلو کو دیکھتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر کو متاثر کرتا ہے ۔ وہ آدمی کے ٹائر کو پنکچر کر دینا چاہتا ہے۔
پھر میں نے کہا کہ ہر آدمی کے اندر بیک وقت دو قو تیں ہیں ۔ ایک وہ جس کو قرآن میں نفس امّارہ کہا گیا ہے۔ اور دوسرا وہ جس کو نفس لو امہ کہا گیا ہے۔ نفس امارہ در اصل وہی چیز ہے جس کو آج کل انا (Ego) کہا جاتا ہے اور نفس لوّ امہ سے مراد ضمیر ((Conscienceہے۔ اب یہ آپ کا امتحان ہے کہ آپ دونوں میں سے کس صفت کو جگاتے ہیں۔ اگر آپ نے آدمی کی انا کو جگایا تو اس کی سرکشی آپ کے حصہ میں آئے گی ، اور اگر آپ نے اس کے ضمیر کو جگایا تو اس کے ضمیر کا فیصلہ آپ کے حصہ میں آئے گا۔
27 مارچ کی شام کو مہاویر بھون (ستنا ) میں پروگرام تھا ۔ ہندو اور مسلمان دونوں بہت بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ تقریر کا موضوع "اسلام اور قیام امن " رکھاگیا تھا۔ میں نے کہا کہ دہلی کے ایک انگریزی اخبار میں حال میں ایک آرٹیکل چھپا تھا، جس کا عنوان تھا :
Bilateralism is Best
یعنی دو طرفہ طریقہ بہترین طریقہ ہے۔ دو فریق کے درمیان اختلاف اور شکایت ہو تو دونوں کو نصف نصف ذمہ داری لے کر معاملہ کو ختم کر دینا چاہیے ۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل غیرعملی بات ہے ۔ اس دنیا میں"ففٹی ففٹی "کی بنیاد پر بھی کوئی اختلافی مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔ میں نے کہا کہ صحیح طریقہ اس کےبرعکس ہے ۔ صحیح طریقہ یک طرفہ طریقہ ہے :
Unilateralism is Best
مگر یک طرفہ طریقہ پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے دل میں انسانوں کے لیے محبت اور خیر خواہی کا دریا بہہ رہا ہو ۔ چوں کہ لوگ نفرت میں اور رد عمل میں جیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ یکطرفہ طریقہ پر عمل نہیں کر پاتے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات سے بتایا کہ آپ نے قدیم عرب میں اسی یک طرفہ طریقہ پر عمل کیا اور زبردست کامیابی حاصل کی۔
تقریر کے بعد ایک مسلمان بھائی ملے ۔ انھوں نے کہا کہ میں فیض آباد کا رہنے والا ہوں۔ یہاں بزنس کے سلسلے میں آیا تھا۔ پروگرام کی خبرسن کر یہاں آگیا۔ میں آپ کی بات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی ایک تقریر فیض آباد میں رکھی جائے۔ وہاں آپ جیسے رہنماؤں کی سخت ضرورت ہے۔
اس جلسہ کے صدر مسٹر شیام سندر شر ما (ا ڈیٹر دیش بندھو )تھے ۔ انھوں نے آخر میں اپنی صدارتی تقریر کی اور کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اسلام پر اتنی اعلیٰ تقریر سنی ہے۔ انھوں نےاپنے غیر معمولی تاثر کا اظہار کیا۔
ستنا سے قریب پنّا ہے جہاں ہیرے کی کانیں ہیں۔ یہاں بھی الرسالہ جا رہا ہے۔ پنا سے آٹھ آدمی ستنا آئے اور پروگرام میں شریک رہے۔ وہ لوگ مجھ کو پنّالے جانا چاہتے تھے مگروقت کی کمی کے باعث میں وہاں نہ جا سکا۔ انھوں نے بتایا کہ پنا میں باشعور طبقہ برابر الرسالہ کا مطالعہ کر رہا ہے اوراس سے اثر قبول کر رہا ہے۔ وہاں کی ایجنسی کے تحت انگریزی الرسالہ بھی جارہا ہے۔ ایک ہند و تعلیم یافتہ استاد نے انگریزی الرسالہ پڑھ کر کہا کہ الرسالہ ایک ایشوری دین ہے، اس کے ذریعے خدا نے اپنے بندوں کی رہنمائی کا انتظام کیا ہے۔
خطاب عام کے علاوہ ، قیام گاہ پر لوگ جمع ہوتے رہے اور مختلف دینی اور ملی موضوعات پراظہار خیال کا موقع ملا۔ ستنا کی ایک مجلس میں ایک صاحب نے جماعت تبلیغ پر کچھ شخصی اور جزئی نوعیت کے اعتراضات کیے۔ میں نے کہا کہ اعتراض کا یہ طریقہ صحیح نہیں ۔ یہ ایک قسم کی سائڈ ٹریکنگ ہے۔ اور سائڈ ٹریکنگ کبھی کسی آدمی کے لیے مفید نہیں ہوتی۔ کسی مشن کے سلسلہ میں ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے ، اور اصل مقصد کی روشنی میں اس پر رائے قائم کرنا چاہیے ۔ جزئی شوشوں اورشخصی قصوں کے پیچھے دوڑ نا ایک غیر اسلامی فعل ہے ، یہ طالبِ حق کا طریقہ نہیں۔
پھر میں نے کہا کہ اس وقت ملت میں دو قسم کی کوششیں چل رہی ہیں ۔ ایک کو میں اپنے الفاظ میں خارج اور نیٹڈ کہوں گا، اور دوسری کو داخل اور ینٹڈ۔ میرے مطالعہ کے مطابق تبلیغی جماعت واحد جماعت ہے جس کو داخل اور ینٹڈ تحریک کہا جا سکتا ہے۔ اس ایک کے سوا جتنی بھی تحریکیں ملت کے اندر چل رہی ہیں ، وہ تقریباً بلا استثناء خارج اور ینٹڈ ہیں۔ اس کے بعد میں نے وہ حدیث سنائی جس میں بتایا گیا ہے کہ "قلب "کی اصلاح پورے "جسم " کی اصلاح کا ذریعہ ہے ۔ اور قلب کا بگاڑپورے جسم کے بگاڑ کا ذریعہ ۔
یہ ہے وہ اصلی فرق جو تبلیغی جماعت اور دوسری جماعتوں میں پایا جاتا ہے۔ نہ کہ وہ شخصی اور جزئی باتیں جو آپ نے فرمائیں ۔ پھر میں نے کہا کہ میں نے قرآن و حدیث کا جو مطالعہ کیا ہے، اس کے مطابق میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ داخل اور ینیڈ طریقہ ہی پیغمبرانہ طریقہ ہے۔ اس کے برعکس خارج اور ینٹڈسر گر میاں جن میں لوگ مشغول میں وہ سراسر غیر پیغمبرانہ ہیں۔ اس قسم کی خارجی سرگرمیوں سے نہ اب تک کوئی حقیقی دینی کام ہوا ہے اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے ۔ جو لوگ ان خارجی سرگرمیوں سے اعلیٰ نتائج کی امید کر رہے ہیں وہ ببول کے درخت سے آم کی فصل کی امید کیے ہوئےہیں۔ ایسی امید خدا کی اس دنیا میں کبھی پوری ہونے والی نہیں۔
ستنا میں ایک اندوہناک تجربہ سامنے آیا۔ ایک مسلمان بزرگ مجھ سے ملے ۔ وہ ساٹھ سال کی عمرمیں 80 سال کے معلوم ہو رہے تھے ۔ بدن پر معمولی کپڑا تھا۔ اور سوکھے چہرے پر ہڈیاں نمایاں ہو رہی تھیں ۔ انھوں نے کہا : "حضرت ، میرے لیے دعا فرمائیں "۔ میں نے کہا ، اللہ آپ کی مدد فرمائے۔ انھوں نے بتایا کہ میرے یہاں دو بچیاں ہیں۔ ان کی شادی کا مسئلہ سر پر ہے ۔ آجکل شادی پیسہ سے ہوتی ہے۔ مگر میرے پاس پیسہ نہیں۔ چار بڑے لڑکے ہیں ۔ وہ اچھی کمائی کر رہے ہیں ، لیکن سب کے سب مجھ سے الگ ہیں۔ ان سے کسی مدد کی امید نہیں ۔ مجھے ان کے حالات سن کر بہت دکھ ہوا۔اور اپنے دل میں دیر تک ان کے لیے دعا کرتا رہا۔
یہ مسلمان در حقیقت موجودہ مسلم سماج کی تصویر تھا۔ موجودہ مسلم سماج اپنوں کے ظلم اور خود غرضی اور غیر شرعی رسم ورواج کے نیچے پِس رہا ہے ۔ مگر کوئی مسلمان اپنے ان ستم رسیدہ بھائیوں کا ساتھ دینے والا نہیں۔ البتہ غیروں کی طرف سے اگر شریعت میں مداخلت کا کوئی شوشہ مل جائے تو ساری قوم جوش و خروش سے بھر جاتی ہے۔ اپنوں کی ہزاروں گنا بڑی مداخلت سے شریعت اسلامی کی دھجّیاں اڑائی جارہی ہیں مگر اس قسم کی باتوں پر مسلمانوں کے درمیان کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی۔
قوم کے سطحی لیڈروں نے بھی قوم کے مزاج کے ساتھ سمجھوتہ کر رکھا ہے۔ وہ مسلم سماج کے داخلی مسائل کے لیے نہیں اٹھتے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے مسائل پر انھیں کبھی لیڈری نہیں ملے گی۔ البتہ غیر قوم کی طرف سے مداخلت فی الدین کا کوئی قصہ ہاتھ آجائے تو فوراً اس کو لے کر اٹھ جاتے ہیں۔ اور جاہل مسلمانوں کی بھیڑ جمع کر کے اپنی شان قیادت میں اضافہ کرتے ہیں۔ مگر لوگوں کو جاننا چاہیے کہ یہ عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں۔اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ (البقره:85) کہا گیا ہے۔ اس قسم کی سرگرمیاں صرف خدا کے غضب کا مستحق بنانے والی ہیں، وہ خدا کےانعام کو کھینچنے والی نہیں۔
30 مارچ 1988 کی شام ستنا سے دہلی کے لیے روانگی ہوئی ۔ ڈبہ میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ میری برتھ اوپر ہے۔ اشارۃ ً میری زبان سے نکلا کہ "لور برتھ " ہوتی تو زیادہ اچھا تھا۔ رزرویشن کے مطابق یہ لور بر تھ ایک ہندو افسر کے پاس تھی۔ ان سے میں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ یہ بات میں نے ان لوگوں سے کہی تھی جو مجھے پہنچانے کے لیے ریلوے اسٹیشن تک آئے تھے ۔ ہند وافسر کو میرے احساس کا علم ہو گیا انھوں نے فوراً کہا کہ آپ نیچے کی برتھ لے لیں ، میں اوپر چلا جاتا ہوں –––– حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی" انسان" ہے۔ وہ صرف اس وقت "غیر انسان "بن جاتا ہے جب کہ اس کی انا کو چھیڑ دیا جائے۔
میری واپسی دوبارہ قطب اکسپریس سے ہوئی۔ 30 اور 31 مارچ کی درمیانی رات کو ٹرین میں ایک انوکھا حادثہ پیش آیا۔ سفر کے دوران میں ضرورت کے تحت ٹوائلٹ میں گیا۔ اس وقت میں چپل پہنے ہوئے تھا ۔ اتفاق سے میرے بائیں پاؤں کا چپل پاؤں سے نکل گیا۔ وہ پھسل کر قدمچہ کے در میان سوراخ تک پہنچا اور ایک لمحہ میں اس کے اندر داخل ہو کر نیچے گر گیا۔ یہ واقعہ چلتی ہوئی ٹرین میں پیش آیا ، اس لیے چپل کو دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہ ہو سکا۔
اچانک خیال آیا کہ یہ حادثہ زمین کی کشش کی وجہ سے ہوا۔ اگر زمین میں کشش نہ ہوتی تو چپل جہاں تھا وہیں پڑا رہتا ، وہ گر کر نیچے نہ جاتا۔ پھر فوراً ہی میں نے سوچا کہ اگر زمین میں کشش نہ ہوتی تو ٹرین بھی نہ دوڑتی ۔ حتیٰ کہ وہ فیکٹری بھی قائم نہ ہو سکتی جہاں جوتے اور چپل بنیں اور کوئی شخص ان کو پہن کر سفر کرے۔(اور اسی طرح خدا کی دنیا میں بھی ) مختلف پہلوؤں کے درمیان ایک نازک توازن قائم رکھا گیا ہے۔ جو لوگ توازن کی اس حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ عجیب عجیب غلط فہمیوں میں پڑ جاتے ہیں ، دنیا کے بارے میں بھی اور خود دین کے بارے میں بھی ۔