پیغمبرانہ طریقہ
سیرت کی کتابوں میں جن واقعات کا ذکر ہے ، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو حلف الفضول کہا جاتا ہے ۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ آپ کو ابھی پیغمبری نہیں ملی تھی ۔ مکہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان میں کچھ لوگ جمع ہوئے ۔ انھوں نے مل کر یہ عہد کیا کہ وہ مظلوم کی حمایت کریں گے اور حق دار کو اس کا حق دلائیں گے۔ جو افراد اس اجتماع میں شریک ہوئے ، ان میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے ۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ پیغمبری کے بعد مذکورہ اجتماع (حلف الفضول) کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت میں بھی اس میں شریک تھا ۔ اور اب اسلام کے بعد بھی اگر مجھے اس کے لیے بلایا جائے تو میں لبیک کہوں گا ، وَلو أدْعَى بِهِ فِي الاسْلامِ لأَجَبْتُ (سيرة ابن هشام ، الجزء الاول ، صفحہ 145)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حلف الفضول والے کام کے بارے میں تھا۔ دوسری طرف دعوت توحید کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ یہ میرا راستہ ہے۔ میں لوگوں کو پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میری پیروی کرنے والے بھی ۔قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ۷ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ(یوسف :108)
ان دونوں باتوں پر تقابلی اعتبار سے غور کیجئے ۔ اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ" حلف الفضول" والے کام میں آپ صرف مدعو کی حیثیت اپنے لیے پسند فرماتے تھے۔ جب کہ "دعوت توحید" والے کام میں آپ داعی کی حیثیت اختیار کیے ہوئے تھے ۔ معلوم ہوا کہ ایسا ماحول جہاں شرک کا غلبہ ہو ، وہاں دعوت توحید ہی اہل ایمان کا اصل ایجابی کام ہوگا۔ وہ داعی الی اللہ بن کر اٹھیں گے ۔ جہاں تک سماجی امن اور اخلاقی سدھار کی بات ہے ، اس میں وہ خیر طلب عناصر کے بلاوے پر وقتی طور پر ان کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں ، مگر اسی کو اپنی دعوت و تحریک کی بنیاد نہیں بنا سکتے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی بگاڑ کی اصل جڑہمیشہ خدا فراموشی ہوتی ہے، اور پیغمبر اور اس کی اتباع میں اہل ایمان ہمیشہ جڑ پر محنت کرتے ہیں نہ کہ شاخوں اور پتیوں پر۔