برا فیصلہ
قرآن میں مشرکین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ نے جو کھیتی اور چو پائے پیدا کیے ہیں، ان میں سے انھوں نے اللہ کا کچھ حصہ مقرر کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حصہ اللہ کا ہے ، ان کے گمان کے مطابق ، اور یہ حصہ ہمارے شریکوں کا ہے ۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا اور جو حصہ اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے ۔ کیسا برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کرتےہیں (الانعام :137)
آدمی زبان سے کہتا ہے کہ میں اللہ کو مانتا ہوں ۔ مگر اس کے دل میں حقیقی اہمیت اور عظمت دوسری چیزوں کی بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اللہ اور غیر اللہ میں ٹکراؤ پیش آتا ہے ۔
قدیم عرب کے مشرکین بظاہر اللہ کا اقرار کرتے تھے ، مگر ان کے دلوں میں سب سے زیادہ بڑائی اپنے بتوں کی بیٹھی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ ایسا کرتے تھے کہ مویشی یا پیدا وار یا نذرو نیاز کی تقسیم میں کچھ حصہ خدا کا نکالتے اور کچھ حصہ بتوں کا ۔ اس تقسیم میں اگر کسی وجہ سے خدا کی طرف زیادہ آجاتا اور بتوں کی طرف کم تو اس کو لے کر فوراً بتوں کی طرف ڈال دیتے۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو۔ یعنی خدا کا حصہ گھٹ جائے اور بتوں کا حصہ بڑھ جائے۔ تو وہ ایسا نہ کرتے کہ بتوں کی طرف سےنکال کر اس کو خدا کے حصہ میں ڈالیں ۔
یہ صرف قدیم مشرکوں کا قصہ نہیں ، یہی معاملہ ہر شخص کے ساتھ پیش آتا ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ قدیم مشرکین یہ معاملہ پتھروں کے ساتھ کرتے تھے ، آج کا انسان یہی معاملہ دوسرے دوسرے" بتوں " کے ساتھ کرتا ہے ۔
آج کے انسان کا یہ حال ہے کہ دیانت داری اور دنیوی مفاد میں ٹکراؤ ہو تو وہ دیانت داری کو دنیوی مفاد کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔ وہ ایسا نہیں کرتا کہ دنیوی مفاد کو دیانت داری کےخانےمیں ڈا لے۔ اس کی وجہ دوبارہ ان کا وہی "برا فیصلہ" ہے جو پہلی صورت میں تھا۔ وہ خدا کے حق میں کمی سے بے خوف ہیں۔ اور غیر خدا کے حق میں کمی کرنے سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہلاک ہو جائیں گے۔