عبرت ناک
ٹائمس آف انڈیا (21 اپریل 1988) میں ایک خبر اورنگ آباد کے میونسپل کارپوریشن کے الکشن (اپریل 1988) سے متعلق ہے۔ جہاں شیو سینا نے 60 سیٹوں میں سے 27 سیٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ شیو سینا تین سال پہلے ختم شدہ طاقت (Spent force) کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ نیز یہ کہ اس سے پہلے وہ زیادہ تر بمبئی کی ایک جماعت سمجھی جاتی تھی۔ مگر اورنگ آباد کے الکشن میں کامیابی نے ظاہر کیا ہے کہ وہ نہ صرف از سر نو زندہ ہو گئی ہے بلکہ اس نے پورے مہاراشٹر میں اپنے اثرات پھیلا لیے ہیں۔ شیوسینا نے یہ کامیابی ہندو ایکتا کانعرہ لگا کر حاصل کی ہے ۔ اس کا ایک خاص نعرہ یہ تھا "گورو سے کہو ہم ہندو ہیں"۔
Be proud to say you are a Hindu.
اورنگ آباد میں 25 فی صد سے زیادہ مسلمان ہیں ۔ بعض حلقۂ انتخاب ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹ اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر شیوسینا نے ایک خالص مسلم حلقہ میں بھی کامیابی حاصل کرلی۔یہاں تین مسلم امیدوار تھے جس کی وجہ سے ان کے ووٹ بٹ گئے :
The Sena was also reported to have won a Muslim-dominated constituency because there were three Muslim candidates and (Muslim) votes were divided.
یہ واقعہ مسلمانوں کی دہری نا دانی کو بتا رہا ہے ۔ یہ در حقیقت مسلمان ہیں جنھوں نے شیو سینا کے خلاف شور و غل کرکے اس کو زندہ کیا۔ مسلمان اگر اس کے معاملہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کرتے تو اب تک وہ اپنے آپ ختم ہو جاتی ۔ مزید یہ کہ جس جماعت کو وہ اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ بتاتے ہیں، اس کے خلاف بھی وہ متحد نہیں ہو سکتے ۔ حتی ٰکہ اپنے عدم اتحاد کی وجہ سے بالواسطہ طور پر اس کی کامیابی کا سبب بن جاتے ہیں۔
جن لوگوں کا یہ حال ہو، ان کے بارے میں کم سے کم جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ ––––سچا عمل تو در کنار ، جھوٹا عمل کرنے کی صلاحیت بھی ان کے اندر باقی نہیں۔ بولنا تو درکنار،نہ بولنے کا فن بھی انھیں نہیں آتا ۔