ایک تجربہ

ایک ہندو خاتون شو بھا دے (Shobha De) کا مضمون ٹائمس آف انڈیا (12 جولائی 1987) میں شائع ہوا ہے ۔ وہ ایک مندر میں داخل ہونا چاہتی تھیں۔ دروازہ پر پہنچیں تو ایک پجاری نے ان کو سخت نظروں سے دیکھا اور کہا : "اندر نہیں جا سکتے "۔ خاتون نے ابتداءً معاملہ کو نہیں سمجھا اور پارڈن (Pardon) کہہ کر آگے بڑھنا چاہا۔ مگر انگریزی لفظ بولنا ان کے معاملہ کو اور نازک بنانے کا سبب بن گیا۔ اس نے ٹوٹی ہوئی انگریزی میں کہا :

No enter for you.

یہ پوری کا مشہور جگنا تھ مندر تھا۔ خاتون حیرانی کے ساتھ دروازہ پر کھڑی رہیں۔ کچھ دیر کے بعد وہ پجاری دوبارہ ان کی طرف مخاطب ہوا اور کہا کہ" اب کیا ہے " خاتون نے پوچھا کہ آخر کس وجہ سے مجھ کو مندر میں جانے سے روکا جا رہا ہے ۔ اس نے کہا کہ یہ صرف ہندؤوں کے لیے ہے۔ بات بڑھی تو وہ ایک پنڈا کو بلا کر لے آیا۔ اس نے کہا کہ "بہن جی ، آپ سمجھتے کیوں نہیں"۔ خاتون بگڑ گئیں ۔ آخر پنڈا نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "جاؤ، جاؤ "۔

بعد کو مندر کے ایک آدمی نے خاتون سے کہا کہ آپ ہندو دکھائی نہیں دیتیں۔ انھوں نے کہا کہ" کیوں نہیں" ۔ آدمی نے کہا : "اس لیے کہ آپ بندی پہنے ہوئے نہیں ہیں"۔ اس طرح بات ہوتی رہی یہاں تک کہ مندر کے آدمی نے پوچھا : " آپ کا شبھ نام "۔خاتون نے جھنجھلا کر نام بتایا تو ایک "ماہر "بلایا گیا۔ اس نے غور کرنے کے بعد کہا : یہ ہندو نام تو ہے ، مگر یہ پچھمی نام ہے۔ خاتون اس قسم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

The whole sham game was reinforcing all my prejudices against the fraud of organised religion.

یہ تمام مصنوعی کھیل میرے اس مخالفانہ رجحان کو اور پختہ کر رہا تھا جو منظم مذہب کے فریب کےبارے میں میرے اندر موجود تھا (ٹائمس آف انڈیا 12  جولائی 1987)

ہندو خاتون آخر میں کہتی ہیں کہ اس تجربہ سے مجھے بہت دکھ پہنچا۔ مشہور ہندو رواداری کے بجائے میرا سابقہ تنگ نظری اور تعصب کے ساتھ پیش آیا۔ وہ اپنے مضمون کو اس جملہ پرختم کرتی ہیں :

I suddenly felt ashamed of having born a Hindu.

اچانک مجھے اپنے ہند و پیدا ہونے پر شرم محسوس ہونے لگی ۔

 مذہب اصلاً خدا اور بندے کے درمیان تعلق کا نام ہے۔ تمام پیغمبروں نے یہ کیا کہ انھوں نے اس تعلق کی صحیح نوعیت کو بتایا ۔ خدا کیا ہے اور بندہ کیا ہے۔ خدا اور بندہ کے درمیان کس طرح تعلق قائم ہو سکتا ہے ۔ اس تعلق کے حدود اور نتائج کیا ہیں ، یہ سب باتیں پیغمبروں نے واضح طور پر بتائیں۔ ہر پیغمبر کا یہی مشن تھا، اور اس مشن کو ہر ایک نے کامل طور پر انجام دیا ۔

مگر اب اسلام اور دوسر ے مذہبوں میں ایک فرق واقع ہو گیا ہے۔ دوسرے تمام مذاہب نے بعد کو وہ صورت اختیار کرلی جس کو "منظم مذہب " کہا جاتا ہے۔ پیغمبر کے بعد آنے والے لوگوں نے خود سے ایک ڈھانچہ بنایا اور اس کو مقدس قرار دے کر لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کی پیروی کریں۔ مزید یہ کہ ان مذاہب کی اصل ابتدائی تعلیمات محفوظ نہیں رہیں ، اس لیے اب کوئی ایسی کسوٹی باقی نہیں جس پر جانچ کر اس ڈھانچہ کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے ۔

اس معاملہ میں اسلام کا کیس بنیادی طور پر مختلف ہے۔ اسلام میں بھی اگر چہ ایسا ہوا کہ بعد کے لوگوں نے بہت سے اضافے کیے ۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ اسلام کی اصل کتاب اور اس کی ابتدائی تعلیمات اپنی سابقہ شکل میں پوری طرح محفوظ ہیں۔ اس لیے ہر شخص کے لیے ممکن ہے کہ وہ اس کی روشنی میں جانچ کر معلوم کر سکے کہ کون سی بات خدا اور پیغمبر کی بات ہے ، اور کون سی بات وہ ہے جو بعد کے انسانوں نے خود سے اضافہ کر کے خدا کے دین میں شامل کر دیا ۔

اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام میں خدا اور بندے کے درمیان کوئی اور حائل نہیں۔ جب کہ دوسرے تمام مذاہب میں بگاڑ کے نتیجہ میں ایسا ہوا کہ خدا اور بندے کے درمیان ایک اور طبقہ حائل ہو گیا۔ وہ چیز جس کو موجودہ زمانہ میں "منظم مذہب " کہا جاتا ہے ، وہ دراصل محرف مذہب کا دوسرا نام ہے۔ اس اعتبار سے اب صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو منظم مذہب نہیں۔ بقیہ تمام ادیان منظم مذہب کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom