لفظ یا حقیقت
رابندرناتھ ٹیگور ( 1941-1861) کو حکومت برطانیہ نے 1915 میں سر کا خطاب دیا تھا۔ 1919 میں جب انگریزی حکومت نے امرتسر میں نہتے ہندستانیوں پر بے رحمانہ گولی چلوائی تو ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا ۔
ڈاکٹر محمد اقبال (1937 – 1877) کو حکومت برطانیہ نے 1922 میں سر کا خطاب عطا کیا۔ اقبال نے اس کو قبول کر لیا اور پھر کبھی اس کو واپس نہیں کیا ۔
راقم الحروف ذاتی طور پر سر کا خطاب لینے کو غلط نہیں سمجھتا۔ مگر اقبال نے اپنی شاعری میں جس قسم کی باتیں کیں، اس کے لحاظ سے انگریزی حکومت کا دیا ہوا سر کا خطاب ان کے لیےبالکل غیر مناسب تھا۔ مثال کے طور پر ان کا شعر ہے :
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبال کے اپنے معیار کے مطابق ، سر کا خطاب قصر سلطانی کے گنبد پر نشیمن بنانے کے ہم معنی تھا، مگر دوسروں کو تو وہ اس قسم کی نشیمن سازی سے باز رہنے کا اپدیش دیتے رہے ۔ لیکن خود ان کا اپنا حال یہ تھا کہ وہ آخر وقت تک قصر سلطانی کے گنبد پر اپنا نشیمن بنائے رہے ۔
یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جو رہنما اٹھے ان کا حال کیا تھا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنما اصلاً یا تو شاعر تھے ، مثلاً اقبال ۔ یا خطیب تھے، مثلاً محمد علی یا انشا پر داز تھے ، مثلاً ابوالاعلیٰ مودودی ۔ وہ مفکر اور بالغ نظر نہ تھے ، جیسا کہ ایک رہنماکو ہونا چاہیے۔ شاعری اور خطابت اور انشاپردازی در اصل لفاظی کا دوسرا نام ہے۔ چنانچہ یہ تمام رہنما لفظی بلند پروازی کے کرشمے دکھاتے رہے ، حقائق حیات کے اعتبار سے وہ مسلمانوں کو ٹھوس رہنمائی نہ دے سکے ۔ اس تخیلاتی رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ رہنما حضرات کی اپنی شخصیت تو بن گئی مگر ملت کا تمام معاملہ برباد ہو کر رہ گیا۔ ہوائی کرشمے دکھانے والا ایک شخص بذات خود اخبار کی سرخیوں میں جگہ پاسکتا ہے، مگر ہوائی کرشمے دکھانے سے کسی قوم کے مستقبل کی تعمیر نہیں ہوتی۔