غلط فہمی

لندن یونیورسٹی کے ڈاکٹرپیٹر ہارڈی (Peter Hardy) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے برطانوی ہند کے مسلمان The Muslims of British India اس کتاب کے ایک باب میں مصنف نے کہا ہے کہ ملک کی تقسیم نے مسلمانوں کے مسئلہ کو حل نہیں کیا۔ یہ بتاتے ہوئے کہ مسلمانوں کے نزدیک اسلام ایک مکمل نظام ہے ، انھوں نے موجودہ ہندستان کے مسلمانوں سے ایک سوال کیاہے جو ان کے الفاظ میں یہ ہے :

Whether in wanting to be accepted as a fellow-citizen on equal terms with his non-Muslim compatriots he is obeying or disobeying Divine Commands.

مسلمانوں کا یہ چاہنا کہ وہ اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کے ساتھ برابر کی شرائط پر یکساں درجہ کے شہری تسلیم کیے جائیں ، یہ خدا کے حکم کی فرماں برداری ہے یا اس کی نافرمانی (ٹائمس آف انڈیا، 8 اپریل 1988)

جولوگ اسلام کی تعبیر "مکمل نظام" کے الفاظ میں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مکمل  نظام ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے ، ان کے لحاظ سے یہ سوال بے حد اہم ہے ۔ ان حضرات کے بیانات کے مطابق وہ شخص اسلام کا ناقص پیرو قرار پاتا ہے جو اعتقادی اسلام کو اختیار کرے مگر سیاسی اسلام کو اختیار نہ کرے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے وہ شخص ناقص عبادت گزار ہے جو نماز پڑھے اور روزہ نہ رکھے ۔ اب اگر واقعتاً  اسلام یہی ہو تو "ہندو انڈیا یا سیکولر ہندستان " میں مسلمانوں کےلیے برابری کا دستوری اور قانونی حق مانگنا کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ مذکورہ تعبیر کے مطابق یہ "باطل نظام " میں حصہ داری کا مطالبہ کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہندستان کے مسلمان یہ مانگ کرنے لگیں کہ ہم کو ملک کے بت خانوں کے اندرونی نظام میں برابر کا شریک بنایا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد مفکرین کی مذکورہ اسلامی تعبیر کا لازمی نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کی طرف ڈاکٹر ہارڈی نے طنزیہ طور پر اشارہ کیا ہے ۔ کیوں کہ اس تعبیر کے مطابق مسلمان کسی دوسرے نظام میں صرف باغی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ وہ ایسے کسی نظام میں وفا داریا شریک کار بن کر نہیں رہ سکتے۔ مگر اسلام کی یہ تعبیر سراسر خود ساختہ ہے جس سے اسلام بری ہے۔یہ نام نہاد" کامل تعبیر" کچھ شاعروں اور انشا پردازوں کے ذہن کی پیداوار ہے ، اس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں ۔

اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنی کتاب "تعبیر کی غلطی" میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اور علمی دلائل سے اسے رد کر دیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کامل سپردگی (Total Submission) کا نام ہے نہ کہ کامل نظام (Total system) کا ۔ ایک شخص جو اللہ   پر ایمان لائے اس کو اپنی سوچ ، اپنے جذبات ، اپنے کردار اور اپنی عبادت گزاری میں کامل طور پر خدا کا فرمانبردار ہونا چاہیے۔ بحیثیت ایک فرد کے اس کو پوری طرح خدا کا بندہ بن کر رہنا چاہیے ۔ حتیٰ کہ جو شخص سیاسی اقتدار کی کرسی پر ہو ، وہ بھی اپنی انفرادی حیثیت ہی میں اللہ کے یہاں جواب دہ ہے نہ کہ اجتماعی حیثیت میں۔

 جہاں تک اجتماعی نظام کا تعلق ہے ، اُس کا معاملہ اس سے بالکل الگ ہے۔ انفرادی احکام على الاطلاق مطلوب ہیں۔ جب کہ اجتماعی احکام حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتے ہیں۔ ایک شخص اگر اپنے انفرادی اختیار کے دائرہ میں اسلامی احکام کو اختیار کرلے تو وہ کامل مسلم ہو گیا۔ اس کے اسلام کی تکمیل اس پر منحصر نہیں کہ وہ انفرادی اختیار کے دائرہ سے باہر اجتماعی اختیار کے دائرہ میں بھی لازماً اسلام کی پیروی کرے ۔

 اس معاملہ کو زکاۃکی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ زکاۃ مسلمان کے اوپر اسی طرح فرض ہےجس طرح نماز فرض ہے۔ مگر دونوں کے درمیانی ایک بنیادی فرق ہے ۔ نماز ایک ایسا حکم ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں لازم ہے۔ نماز ایک مسلمان سے کسی حال میں ساقط نہیں ہوتی۔ مگر زکاۃ  کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ ایک شخص اگر صاحب نصاب ہو تو اس کے لیے زکاۃ کی ادائیگی ضروری ہوگی۔ مگر جو شخص صاحب نصاب نہ ہو اس پر نہ زکاۃ کی ادائیگی واجب ہے ، اور نہ یہ واجب ہے کہ وہ کمائی کر کے صاحب نصاب بنے تا کہ وہ قرآنی حکم کے مطابق زکاۃ ادا کر سکے ۔

 مذکورہ ذہن کے لوگ ہندستان کو غلبۂ کفر کا ملک سمجھتے ہیں۔ مگر یہ سراسر جہالت ہے ۔ ہندستان ایک سیکولر ملک ہے۔ دستور کے مطابق یہاں ہر مذہب کو یکساں طور پر آزادی حاصل ہے۔یہاں کی حکومت مذہبی امور میں عدم مداخلت کی پابند ہے ۔ اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ ہندستان سیاسی اعتبار سے، غلبۂ نا طرفداری کا ملک ہے نہ کہ غلبہ ٔکفر کا ملک۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom