مومنانہ طریقہ
ابن عبد البر اندلسی (م 463 ھ) نے ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے :
وَرُوِّينَا أَنَّ طَاوُسًا وَوَهْبَ بْنَ مُنَبِّهٍ الْتَقَيَا، فَقَالَ طَاوُسٌ لِوَهْبٍ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، بَلَغَنِي عَنْكَ أَمْرٌ عَظِيمٌ فَقَالَ: مَا هُوَ؟ قَالَ: تَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ حَمَلَ قَوْمَ لُوطٍ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ ثُمَّ سَكَتَ قَالَ: فَقُلْتُ: هَلِ اخْتَصَمَا قَالَ: لَا " ۔ (جامع بیان العلم وفضله ، حدیث نمبر 1799)
ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ طاؤس اور وہب بن منبہ ایک دوسرے سے ملے ۔ طاؤس نے وہب سے کہا کہ اے ابوعبد اللہ ، آپ کے بارے میں مجھے ایک سنگین بات پہنچی ہے ۔ انھوں نے پوچھا کہ وہ کیا طاؤس نے کہا یہ کہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ ہی نے تو قوم لوط کے بعض کو بعض کے اوپر چڑھایا۔ وہب بن منبہ نے کہا کہ اللہ کی پناہ ۔ پھر دونوں چپ ہو گئے ۔ میں نے راوی سے پوچھا ، کیا دونوں میں بحث ہوئی ۔ راوی نے جواب دیا کہ نہیں ۔
سوال دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک سچا سوال ، دوسرے جھوٹا سوال ۔ سچا سوال کرنے والا واقعی سائل ہوتا ہے۔ وہ ایک بات کی حقیقت جاننا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے آدمی کو چپ کرنا آسان ہے ۔ اس کو اپنے سوال کا جواب مطلوب تھا، اور جب اس کو اپنے سوال کا جواب مل گیا تو وہ خاموش ہو گیا ۔
جھوٹے سائل کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ اس کا مقصد حقیقت کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ شخصِ ثانی کو غلط ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ اپنے سوال کا جواب پا کر چپ ہو جائے تو اس کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ ہر جواب کے بعد نئے شوشے نکال لیتا ہے ––––––– کبھی غیر متعلق باتیں چھیڑتا ہے ۔ کبھی دلیل سے ہٹ کر عیب جوئی کا طریقہ اختیار کرتا ہے ۔ کبھی تلخ کلامی سےمخاطب کو زیر کرنا چاہتا ہے ۔ کبھی دھاندلی اور تمسخر کا انداز اختیار کر تا ہے ۔
جو لوگ اس طرح دوسرے کو غلط ثابت کرنا چاہیں ، وہ خود اپنے آپ کو غلط ثابت کرتےہیں نہ کہ کسی دوسرے شخص کو۔