امتحان
احد کی جنگ (3 ھ) میں اہل ایمان کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ 70 مسلمان شہید ہو گئے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید زخم آئے ۔ ان واقعات پر مدینہ کے مسلمان غم زدہ تھے ۔ قرآن میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ دو جماعتوں کی مڈبھیڑ کے وقت تم کو جو مصیبت پیش آئی وہ اللہ کے حکم سے تھی ۔ اور اس لیے تھی تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تاکہ وہ ان لوگوں کو جان لے جو منافق ہیں ( آل عمران :166,167)
یہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سنت ہے جو مختلف الفاظ میں مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ سورہ نمبر 57 میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی مصیبت جو آتی ہے ، خواہ وہ جس صورت میں بھی آئے ، وہ پہلے سے کتاب خداوندی میں لکھی ہوئی ہے (الحدید: 22) اس سلسلے میں آگے ارشا د ہوا ہے کہ ––––– اور تا کہ اللہ معلوم کرے کہ کون مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسول کی بن دیکھے ۔ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ وَرُسُلَهٗ بِالْغَيْبِ (الحديد :25)
احد کا حادثہ اسی قسم کا ایک امتحان تھا۔ مدینہ کے مسلمانوں میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک طاقتورایمان والے ، دوسرے کمزور ایمان والے ۔ طاقت ور ایمان والے "غیب" کی سطح پر سچائی کو پائے ہوئے تھے۔ وہ چیزوں کو حق اور ناحق کی روشنی میں دیکھتے تھے نہ کہ ظاہری فتح اور شکست کی روشنی میں ۔
کمزور ایمان والے معاملات کو صرف ظاہری سطح پر دیکھنے والی نگاہ رکھتے تھے ۔ چنانچہ احد کے حادثہ کے بعد وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھنے لگے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کی صداقت پر شک کرنے لگے۔ انھوں نے اپنی روش سے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف اس حق کے ساتھی ہیں جوانھیں ساحل پر مل جائے ۔ جس حق کی خاطر دریا کی موجوں کے تھپیڑے کھانے پڑیں ، اس سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں ۔
اس دنیا میں حق کو "غیب" کی سطح پر پانا پڑتا ہے۔ جو لوگ حق کو "شہود" کی سطح پر پانا چاہیں، وہ حق کو پانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔