اصحابِ رسول
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اصحاب کو برا نہ کہو۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سوناصدقہ کرے تو وہ ان کے ایک مُد یا اس کے نصف کے صدقہ کے برابر بھی نہیں پہنچے گا۔لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ(صحيح مسلم ،حدیث نمبر 2540 ،سنن ابی داؤد،حدیث نمبر 4658 )
اصحاب رسول کی یہ عظمت کسی پر اسرارتقدس کی بنا پر نہیں ہے، اس کی ایک معلوم اور معقول وجہ ہے ، اور وہ وہی ہے جو قر آن میں واضح طور پر بتائی گئی ہے ۔ یہ وجہ ہے " فتح " سے پہلےایمان لانا اور قربانیاں دینا ۔ (الحدید :10)
غلبہ اور فتح سے پہلے رسول کی حیثیت بس ایک عام انسان کی تھی۔ اس وقت تک آپ کی حیثیتِ رسالت ثابت شدہ نہیں بنی تھی، وہ تاریخی طور پر معتبر اور مسلم نہیں ہوئی تھی ۔ اس وقت رسول کو پہچاننے اور اس پر فدا ہونے کے لیے وہ خاص نظر در کارتھی جو کسی چیز کو محض جو ہر کی سطح پر پہچان لیتی ہے۔ اس وقت آپ کا ساتھ دینے کے لیے وہ انوکھا حوصلہ درکار تھا جو ایسے وقت میں ایک صاحبِ حق کا ساتھ دے جس کا ساتھ دینا پورے سماج میں نکو بن جانے کے ہم معنیٰ ہو۔ جو اس وقت قربانی پیش کرے جب کہ قربانی پیش کرنے کا کوئی کریڈٹ اس کو نہ مل رہا ہو۔
سورہ ہود میں ہے کہ پیغمبر کا انکار کرنے والوں نے کہا کہ ہم تمہارے اندر کوئی "فضل" نہیں دیکھتے۔ پیغمبر نے جواب دیا ، کیا تم کو "بیّنہ " دکھائی نہیں دیتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا چیزجو ہر دور میں داعیانِ حق کو پہچانے میں رکاوٹ بنتی رہی ہے ۔ وہ یہ کہ لوگ اپنی ظاہر بینی کی وجہ سے داعیٔ حق کو دنیوی بڑائی کی زمین پر دیکھنا چاہتے ہیں ، جب کہ حق کا داعی ہمیشہ دلیل کی زمین پر کھڑا ہوتا ہے ۔ صحابہ تاریخ کے وہ نادر گروہ ہیں جنھوں نے پیغمبر کو اس وقت پہچانا جب کہ اس کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے نظری دلیل کے سوا اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔ ان کی یہی امتیازی صفت ہے جس نے ان کو تاریخ میں امتیازی درجہ دے دیا ۔