تربیتِ افراد
ایک صاحب سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ انھوں نے ایک صاحب کا قصہ بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ الرسالہ پڑھنے والے کچھ افراد کو میں نے دیکھا ہے، وہ بہت مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ حالاں کہ میری آمدنی ان سے زیادہ ہے، مگر مجھے اطمینان والی زندگی حاصل نہیں۔
میں نے ان سے کہا کہ یہ الرسالہ کا کرشمہ نہیں، بلکہ وہ اسلام کا کرشمہ ہے۔ قرآن کے مطابق، اسلام آدمی کو نفس مطمئن (الفجر، 89:27)بناتا ہے۔ اسی نفس مطمئن کا وہ نتیجہ ہے، جس کا آپ نے ذکر کیا۔ جب بھی کسی انسان کو حقیقی معنوں میں اسلام حاصل ہوجائے، تو اس کے بعد یہی ہوگا کہ اس کو اتھاہ اطمینان والی زندگی حاصل ہوجائے گی۔ اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی آگاہ رہو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں اسلام کے نام پر بہت سی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر شاید ان میں سے کوئی بھی سرگرمی نہیں جو لوگوں کو حقیقی اسلام کا تحفہ دے رہی ہو۔ کوئی تحریک مسلمانوں کو پراسرار کہانیاں سنارہی ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کےاندر خوش عقیدگی کا ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک حکومت واقتدارکو نشانہ بنائے ہوئے ہے جس کے نتیجہ میں سیاسی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ کوئی تحریک غیر مسلموں کے خلاف جہاد کا نعرہ لگا رہی ہے جس سے صرف نفرت کا ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک ملّی مسائل کا اشو اٹھائےہوئے ہے،جس سے صرف قومی ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک فقہی مسلک پر زور دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں صرف کٹر پن اور تفرق کا ذہن بنتا ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی ذہن حقیقی معنوں میں اسلامی ذہن نہیں۔
موجودہ مسلم تحریکوں میں مشترک طورپر یہ بات ہے کہ وہ اسلام کو اس طرح پیش کرتی ہیں جیسے کہ اس کا تعلق انسان کی حقیقی زندگی سے نہ ہو۔ ان کے مطابق، اسلام یا تو فخر کی چیز ہے یا برکت کی چیز یا شہادت کے نام پر لڑ کر مرجانے کی چیز۔ انسان کو روز مرہ کی زندگی میں جو عملی مسائل پیش آتے ہیں، گویا کہ ان کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں، ان کے لیے اسلام میں کوئی رہنمائی نہیں۔
الرسالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسلام کی اصل اسپرٹ کو زندہ کرنا چاہتا ہے، اور جن لوگوں کے اندر یہ اسپرٹ زندہ ہوجائے، ان کے لیے اسلام زندگی کا گائڈ بن جاتاہے،ایک ایسا گائڈ جو زندگی کے ہر چھوٹے اور بڑے معاملہ میں اس کا قابلِ عمل رہنما ہو۔
اسلام اپنے ماننے والے انسان کے اندر اطمینانِ قلب کا جو مزاج پیدا کرتا ہے، اس کے دو خاص سبب ہیں جن کا میں یہاں ذکر کروں گا۔ یہی دونوں صفتیں اہل ایمان کے اندر وہ مزاج پیدا کردیتی ہیں جن کا مذکورہ صاحب نے ذکر کیا۔ ایک یہ کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک اعلی مشن دیتاہے، دعوت کا مشن۔ یہ مشن ہر قسم کی مادی چیزوں سے بلند ہے۔ جو لوگ اسلام کو اپنی زندگی میں بطور مقصدشامل کرلیں ان کو اسلام ایک اعلی مشن کا حامل بنا دیتاہے۔
صاحب مشن ہونے کا یہ احساس آدمی کو اتنا زیادہ اونچا اٹھا دیتا ہے کہ ہر دوسری چیز اس کے لیے حقیر بن جاتی ہے۔ عام لوگ دولت، عزت، شہرت اور عہدہ، وغیرہ کو بڑی چیز سمجھتےہیں، مگر اسلامی مشن کے حامل ایک شخص کا احساس یہ ہوجاتاہے کہ اس کو ان تمام چیزوں سے زیادہ بڑی چیز حاصل ہے۔ ان چیزوں کا ملنا یا نہ ملنا دونوں اس کی نظر میں برابر ہوجاتےہیں۔ دوسرے لوگوں کے برعکس، صاحب مشن ایسی چیز میں جیتا ہے،جس میں نہ کھونے کا اندیشہ ہے اور نہ کم ہونے کا خوف۔ یہ احساس اس کو ابدی طورپر مطمئن بنا دیتاہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کو بطورِ مشن لے کر اٹھنے والے شخص کی زندگی فطری طور پر سادہ اور غیرتکلفانہ ہوجاتی ہے۔ ان کے اندر دنیا کے بارےمیں قناعت کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے۔ حرص اورحسد کا جذبہ ان کے سینہ سے نکل جاتا ہے جو تمام بے چینیوں کا اصل سبب ہے۔ صاحب اسلام کا مسلک یہ بن جاتاہے — اتنے کم پر راضی رہو کہ جو کچھ تم کو مل جائے وہی تم کو کافی معلوم ہو۔