الرسالہ کا ایک سبق

عام طورپر الرسالہ میں آیت کا ترجمہ دیا جاتا ہے، مگر کبھی کبھی ترجمہ موجود نہیں ہوتا۔ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ الرسالہ کے قاری براہِ راست طور پر قرآن سے مربوط ہوں۔آپ جانتے ہیں کہ اِس زمانے میں چھپا ہوا با ترجمہ قرآن ہر گھر میں موجود رہتا ہے۔اور اگر بالفرض کسی کے گھر میں با ترجمہ قرآن موجود نہ ہو تو اس کو پہلی فرصت میں با ترجمہ قرآن حاصل کرکے اپنے گھر میں رکھنا چاہیے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جب بھی الرسالہ کا قاری ایسی کسی آیت کو الرسالہ میں پڑھے تو وہ قرآن کھول کر حوالہ کے ذریعے مذکورہ آیت نکالے اور اس کو پڑھ کر اس آیت کا ترجمہ معلوم کرے۔ اس طرح اُس کے مطالعہ کا تاثر بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔

قرآن کی حیثیت زندگی کے معاملات میں ایک ریفرنس بک (reference book)کی ہے۔ پرنٹنگ پریس سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ اکثر مسلمان قرآن کے حافظ ہوتے تھے۔ جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا، تو وہ اپنے حافظے کی مدد سے قرآن کی اس آیت تک پہنچ جاتے اور اُس سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کرتے۔ اب پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے اور با ترجمہ قرآن کے نسخے چھپے ہوئےتقریباً ہر گھر میں موجود ہیں، اور بالفرض اگر کسی کے گھر میں باترجمہ قرآن موجود نہ ہو تو بہت آسانی کے ساتھ وہ اس کو قریبی مارکیٹ سے حاصل کرسکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ الرسالہ کا ہر قاری قرآن کو اپنے لیے ایک ریفرنس بک بنالے۔ جب بھی قرآن کی کوئی آیت اس کے سامنے آئے تو خواہ وہاں اس کا ترجمہ موجود ہو یا موجود نہ ہو، ہر حال میں وہ اس آیت کواپنے باترجمہ قرآن میں براہِ راست دیکھے۔اِس طرح اس کا تعلق قرآن سے بڑھے گا اور اس کے یقین میں اضافہ ہوگا۔

الرسالہ محض ایک ماہ نامہ پرچہ نہیں، وہ ایک دینی تحریک ہے۔ الرسالہ کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی خطوط پر لوگوں کی ذہنی تربیت کی جائے۔ یہ مقصد اس وقت پورا ہوتا ہے جب کہ الرسالہ کے قارئین الرسالہ کو قرآن سے ملا کر پڑھیں۔ میرا مشورہ ہے کہ قارئینِ الرسالہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی تفسیر تذکیر القرآن کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھیں۔ آپ تذکیر القرآن کامطالعہ الگ سے بھی کریں اور الرسالہ کو پڑھتے ہوئے بھی جہاں کوئی آیت آئے تو اس کو بھی تذکیر القرآن سے ملا کر دیکھیں۔ اس طرح آپ کے مطالعہ کی دینی افادیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔

الرسالہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ وقت گزاری کے طورپر اس کو پڑھ لیا جائے۔ الرسالہ ایک تحریک ہے۔ الرسالہ کی اِس تحریکی نوعیت کا تقاضا ہے کہ اس کو باقاعدہ اور منظّم مطالعے کے انداز میں پڑھا جائے۔ الرسالہ کے مطالعے کو مکمل ذہنی سرگرمی کا ذریعہ بنا دیا جائے۔

مجھے کئی بار یہ تجربہ ہوا ہے کہ ایک شخص مجھ سے ملے گا۔ وہ چند گھنٹے میرے ساتھ گزارے گا، پھر جاتے ہوئے وہ کہے گا کہ میں برسوں سے ماہ نامہ الرسالہ اورآپ کی کتابیں پڑھ رہا تھا اور اس سے متاثر تھا، لیکن چند گھنٹہ آپ کی صحبت میں بیٹھنے سے جو فائدہ ہوا، وہ برسوں تک الرسالہ اور کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوا تھا۔ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگ ماہ نامہ الرسالہ کو صرف انٹرسٹ ریڈنگ (interest reading) کے لیے پڑھتے ہیں۔ اِس کا اندازہ اِس طرح ہوتا ہے کہ جب اُن سے پوچھا جائے کہ آپ الرسالہ کیوں پڑھتے ہیں، تو وہ کہیں گے کہ اُس میں نئی نئی معلومات ہوتی ہیں۔ اس کا اسلوب منفرد ہے۔ اِس میں چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے نتائج نکالے جاتے ہیں، وغیرہ۔ جولوگ اِس قسم کی بات کہتے ہیں، وہ ابھی تک صحیح معنوں میں الرسالہ کے قاری نہیں بنے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو صحبت سے جو چیز ملتی ہے، وہ ان کو الرسالہ کے مطالعے سے نہیں ملتی۔

الرسالہ کے مطالعے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو کئی بار پڑھا جائے۔ اگر ممکن ہو تو اس کے حوالوں کو دوبارہ اصل کتاب میں دیکھا جائے۔ الرسالہ کے مضامین پر علمی انداز میں باہم مذاکرہ کیاجائے۔ مزید غور وفکر کے ذریعے سطورکے درمیان اس کے بین السطورکو جاننے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اِس طرح الرسالہ کا مطالعہ کریں، ان کے لیے الرسالہ کا مطالعہ، ایک زندہ مطالعہ بن جائے گا۔ جو چیز انھوں نے ’’صحبت‘‘ کے ذریعے پائی تھی، وہ اس کو الرسالہ کے مطالعے کے دوران پالیں گے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom