مشن، انٹرایکشن
ایک صاحب لکھتے ہیں :میں کافی عرصے سے مستقل طورپر آپ کے مؤقر علمی اور دعوتی مجلہ ماہ نامہ الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہوں۔ میں نے ہر لحاظ سے الرسالہ کو مفید اورچشم کشا پایا ہے۔مدرسہ کے دیگر اساتذہ بھی الرسالہ سے برابر استفادہ کررہے ہیں۔ ادارے کے بہت سے نزاعی امور کو حل کرنے میں بھی الرسالہ نے ہمیں حکیمانہرہ نمائی دی اور کئی نازک مسائل نہایت احسن طریقے سے حل ہوگئے۔ تاہم ایک چیز جو مجھے آپ سے عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ بسا اوقات آپ ایک انگریزی عبارت نقل کرتے ہیں، مگراس کا ترجمہ درج نہیں ہوتا۔ اِس سے پوری بات سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اگر آپ ہر انگریزی عبارت کا ترجمہ بھی تحریر فرمادیں تو ہم جیسے لوگوں کے لیے الرسالہ سے مزید استفادہ کرنا آسان ہوجائے گا (مولانا محمد شاہد قاسمی، ہریانہ)۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ میں انگریزی عبارتیں بھی ہوتی ہیں اور قرآن اورحدیث کے حوالے بھی۔ اکثر ان کا ترجمہ ساتھ ساتھ موجود رہتا ہے، مگر کبھی کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا بھول کر نہیں ہوتا، بلکہ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ایسا ایک مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو چاہیے کہ وہ اِس مقصد کو سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، الرسالہ ایک مشن ہے۔ مشن لازمی طورپر انٹریکشن (interaction) چاہتا ہے۔ بعض اوقات ترجمہ نہ دینے کا مقصد قارئین کے لیے انٹریکشن کے اِنھیں مواقع کو پیداکرنا ہے۔ مثلاً جب الرسالہ میں کوئی انگریزی لفظ یا انگریزی جملے ہوں اوران کا ترجمہ وہاں موجود نہ ہو، تو غیر انگریزی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر آس پا س کے کسی انگریزی داں آدمی سے ملے، اور اُس کے ذریعے سے انگریزی عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح، قارئین الرسالہ کی ملاقات دوسرے لوگوں سے ہوگی اورنتیجۃً ایسی ملاقات مشن کی توسیع کا ذریعہ بن جائے گی۔
اِسی طرح، جب کبھی الرسالہ میں قرآن اور حدیث کا کوئی حوالہ ہو اور وہاں اس کا ترجمہ موجود نہ ہو، تو غیر عربی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر قریب کے کسی عالم سے ملے۔ وہ اُس عالم کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح یہ ہوگا کہ الرسالہ کے قارئین کا تعلق علما سے بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ان کو بہت سے دینی فوائد حاصل ہوں گے۔
الرسالہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اِس کے قارئین کا عمومی انٹریکشن بڑھے، جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں کا تعلق علما سے قائم ہو، اور اِسی طرح، علما کاتعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں سے قائم ہو۔ اِس طرح، دونوں کے اجتماع سے دینی اور دعوتی فوائد کے علاوہ، ان کے لیے ذہنی ارتقا کا دروازہ کھلے، اور وہ زیادہ بہتر طورپر الرسالہ کے دعوتی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرسکیں۔