اسپریچول کلاس

پچھلےکئی سالوں سے میں دہلی میں اسپریچول کلاس (spiritual class) چلا رہا ہوں۔اس کلاس میں انگریزی تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان شریک ہوتے ہیں۔اسپریچول کلاس در اصل ایک خاص تصورِ اصلاح پر قائم ہے۔اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ دہلی کے کچھ انگریزی تعلیم یافتہ ہندو نوجوانوں کے اندر اسلام کو سمجھنے کا شوق پیدا ہوا۔وہ انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر چاہتے تھے۔ان کو دہلی کے کسی مسلمان نے بتایا کہ تم لوگ جماعتِ اسلامی کے دفتر جائو، وہاں تم کو اپنے مقصد کے مطابق کتابیں مل جائیں گی۔چنانچہ وہ جماعت ِاسلامی کے مرکزی دفتر گئے اور وہاں کے ذمہ داروں سے ملے۔انھوں نے ان ہندو نوجوانوں کو 15کتابیں دیں۔یہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں کا انگریزی ترجمہ تھا۔ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد وہ دوبارہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے ملے۔انھوں نے انھیں بتایا کہ آپ کی یہ کتابیں ہم نے پڑھیں، مگر یہ کتابیں ہمارے مائنڈ (mind) کو ایڈریس نہیں کرتیں :

These books do not address our mind

انھوں نے کہا کہ یہ کتابیں مسلم مائنڈ کو سامنے رکھ کرلکھی گئی ہیں جو پہلے ہی سے بطورِ عقیدہ اسلام کی سچائی کو مانتے ہیں۔جب کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ ہم اسلام کی سچائی کو بطور عقیدہ نہیں بلکہ بطوردلیل آبجیکٹیو طور پر سمجھنا چاہتے ہیں۔ہم سچائی کے متلاشی ہیں اور ہم نے دوسرے مذہبوں اور فلسفوں کو پڑھا ہے اور اب ہم اسلام کو اس حیثیت سے پڑھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ عقلی بنیاد پر پورا اتر رہا ہے یا دوسرے مذہبوں کی طرح وہ بھی ایک عقیدہ (dogma)کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ نوجوان وہاں سے مایوس ہوکر واپس ہو گئے۔پھران کی ملاقات جمیل احمد الیاسی سے ہوئی۔انھوں نے کہا کہ میرے علم کے مطابق، دنیا میں صرف ایک ہی مسلم عالم ہے جس کی کتاب تم لوگوں کو مطمئن کر سکتی ہے۔انھوں نے میرا نام بتایا۔یہ نوجوان میرے پاس آئے۔میں نے ان لوگوں کونہ صرف اپنی کتابیں پڑھنے کو دیں بلکہ ان کو اپنے ہفتہ وار اسپریچول کلاس میں شامل کرلیا۔اب یہ نوجوان مکمل طور پر اسلام کی صداقت پر مطمئن ہو چکے ہیں اور وہ ہمارے مشن کے باقاعدہ ممبر ہیں۔

اس تجربہ سے مجھے ایک نئی حقیقت دریافت ہوئی۔مسلمانوں میں جو مصلحین اٹھے انھوں نے زیادہ ترجلسوں اور اجتماعات کو خطاب کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔گویاکہ ان کا طریقہ بھیڑ(crowd) کو ایڈریس کرنا تھا۔مگر یہ تجربہ اپنے مقصد کے اعتبار سے نا کام رہا۔اسپریچول کلاس کے تجربہ کے ذریعہ مجھے معلوم ہوا کہ اصلاح یا قرآن کے الفاظ میں تزکیہ کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ انفرادی ذہن کو ایڈریس کیا جائے۔یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ اصلاح کا مقصد حقیقی طورپر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اس تجربہ کے ذریعہ میں نے ایک معلوم حقیقت کو دوبارہ دریافت کیا۔ وہ یہ کہ، مشہور حدیث کے مطابق،ہر انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی بے آمیز فطرت پر ہوتا ہے۔اس اعتبار سے ہر انسان کو مسٹر نیچر کہا جا سکتا ہے۔مگر اس کے بعد اس کا ماحول اس کو ’’یہودی یا مجوسی یا نصرانی‘‘ بنا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ایک کنڈیشنڈ کیس بن جاتا ہے۔ایسی حالت میں سب سے پہلا کام ہر آدمی کی کنڈیشننگ کو توڑنا ہے۔گویاکہ اصلاح و تزکیہ کا کام ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ عمومی تقریر یاوعظ خوانی سے۔

ہماری اسپریچول کلاس میں جو ہندو نوجوان شریک ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم اس کلاس میں شرکت سے پہلے اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اسلام ہمارے لیے کوئی پسندیدہ مذہب بن سکتا ہے۔ہم تو آپ کے پاس روحانیت (spirituality)کی تلاش میں آئے تھے۔پہلے ہم سمجھتے تھے کہ اسلام کا مطالعہ اسلام کے بارے میں ہمارے منفی ذہن کو مزید پختہ کردے گا۔مگر آپ نے ہمارے اوپر ڈی کنڈیشننگ کاجو پراسس چلایا اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ ہم اسلام کی تصویرکواس کی اصلی صورت میں دیکھ سکیں۔

اسپریچول کلاس سے ایک اور بات مجھے معلوم ہوئی۔یہ نوجوان میری کلاس میں آنے لگے تو میں اپنی عادت کے مطابق، ایسا نہیں کرتا تھا کہ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کروں۔بلکہ میں شدید الفاظ میں ان کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا تھا۔یہ لوگ اپنے گھروں میں اپنے ماں باپ کی طرف سے پیمپرنگ (pampering)کے عادی تھے، لیکن میرے یہاں اس کے برعکس انہیں ہیمرنگ (hammering)کا تجربہ ہوا۔ابتدا میں وہ لوگ اس سخت تجربہ سے گھبرائے۔مگر وہ برابرہماری کلاس میں آتے رہے کہ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔

آخرکار اب وہ کھلے طور پرمانتے ہیں کہ میری ہیمرنگ سے ان کو وہ فائدہ ہوا جو انہیں ان کے ماں باپ کی پیمپرنگ سے نہیں ہو سکتاتھا اور نہ ہوا تھا۔ہماری کلاس کی ایک خاتون پریا ملک ممبئی گئیں۔وہاں ایک مسلمان سے ان کی گفتگو ہوئی۔پریا ملک نے اسلام کے بارے میں جوگہری باتیں بتائیں اس کو سن کرمسلمان کو بہت تعجب ہوا۔انھوں نے پوچھاکہ آپ ایک ہندو فیملی میں پیدا ہوئیں پھر اسلام کے بارے میں آپ کے اندر اتنی کلیرٹی (clarity) کہاں سے آئی۔پریا ملک نے جواب دیا کہ اس کا راز صرف ایک ہے اور وہ ہے:

hammering, hammering, hammering.....

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom