سی پی ایس انٹرنیشنل
سَروے بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد آئی ڈنٹٹی کرائسس (identity crisis) کا کیس بنے ہوئے ہیں۔ اِس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر چھوٹے اور بڑے انسان کا یہ حال ہوا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ایک کامیڈی کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا مگر موت نے بتایا کہ ہر ایک کے لیے صرف ٹریجڈی کا انجام مقدر تھا، ہر آدمی غیر حاصل شُدہ تمنّاؤں (unfulfilled desires)کا کیس بن کر رہ گیا۔ یہ بلا شبہہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ دردناک سوال ہے جس کا جواب شعوری یا غیر شعوری طورپر تمام عورت اور مرد تلاش کررہے ہیں، اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔تجربہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور مرد شعوری یا غیر شعوری طورپر کچھ سوالات سے دوچار رہتے ہیں ——میں کون ہوں، میری پیدائش کا مقصد کیا ہے، یہ دنیا کس منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے، موت کے بعدکیا ہونے والا ہے، اس دنیا کے بارے میں خدا کا کریشن پلان کیا ہے۔ یہ سوالات آئڈیالوجی آف لائف سے تعلق رکھتے ہیں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مقصد انھیں سوالات کا جواب فراہم کرنا ہے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل (Centre for Peace and Spirituality)گویا ایک اسٹڈی فورم ہے۔ سی پی ایس، لٹریچر، میڈیا، آڈیو اور ویڈیو اورانٹرنیٹ کے ذریعے یہ کوشش کررہا ہے کہ وہ پُرامن انداز میں سچائی کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل گویا عالمی ڈائلاگ کا ایک اسٹیج ہے۔ وہ اِس لیے قائم کیا گیا ہے کہ لوگ اعلیٰ فکری سطح پر زندگی اور کائنات کے بارے میں ڈسکشن کریں اور اِس معاملے میں وہ کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص دعوتی تحریک ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا تعلق، سیاست سے نہ براہِ راست طورپر ہے اور نہ بالواسطہ طورپر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں سیاست ایک ثانوی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ اب سیاست کا تعلق صرف ایڈمنسٹریشن سے ہے۔ زندگی کے دوسرے تمام شعبے سیاست کے دائرۂ عمل سے باہر ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم زمانے میں ایسا نہ تھا۔
زندگی میں دو اہم شعبے ہیں۔ ایک ہے انتظامِ ملکی، اور دوسرا ہے انسان سازی۔ قدیم زرعی دَورمیں یہ دونوں شعبے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ موجودہ صنعتی اور سائنسی دَور میں یہ دونوں شعبے عملاً ایک دوسرے سے الگ ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کو انتظامیہ (administration) کہاجاتا ہے۔ اب اگر کسی کو حکومتی عہدہ مطلوب ہو تو اس کو سیاست میں جانا چاہیے۔ لیکن جو لوگ انسانی ترقی سے دلچسپی رکھتے ہوں اُن کے لیے صحیح اور مفید طریقہ یہی ہے کہ وہ اقتدار سے باہر غیر سیاسی شعبوں کو اپنی جدوجہد کا نشانہ بنائیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل انسانی ترقی سے دل چسپی رکھتا ہے۔ اِس لیے ا س نے صرف غیر سیاسی شعبے کو اپنا میدان کار بنایا ہے۔ مثلاً ایجوکیشن، فارمل اور انفارمل دونوں، اسپریچول ڈیولپ مینٹ، تعمیر ِ شعور، امن کا فروغ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا، ویب سائٹ، میٹنگ اور ڈائلاگ، فکری رہنمائی اور ذہنی انقلاب، وغیرہ۔ یہی سی پی ایس کا اساسی مقصد ہے۔ ہمارا اصل کام فکری انقلاب لانا ہے۔ عملی انقلاب اِسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے۔ فکری انقلاب کے بغیر عملی نتائج پانا کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں پر قائم کیاگیا ہے۔ سی پی ایس کا پیغام یہ ہے کہ آؤ ہم امن اور روحانیت کے اصولوں میں اپنی مطلوب آئڈیالوجی آف لائف کو تلاش کریں۔ سی پی ایس کو یقین ہے کہ انسان، امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں میں اپنے اُن سوالات کا جواب پاسکتا ہے جن کا جواب پانے کے لیے وہ لمبی مدت سے ناکام طورپر سرگرداں ہے، اور پھر زیادہ بہتر بنیادوں پر وہ اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرسکتا ہے۔
امن کے متعلق عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے وہ عدمِ جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ مگر یہ امن کی ایک ناقص تعبیر ہے۔ صحیح یہ ہے کہ امن ایک مکمل کلچر کا نام ہے۔ امن ایک اصولِ حیات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عدم ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے زندگی کی تعمیر وتشکیل کی جائے۔ میدانِ جنگ کے محدود دائرے سے باہر کی پوری زندگی امن کے دائرے میں داخل ہے۔
روحانیت کو عام طور پر ایک پُر اسرار ڈسپلن سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روحانیت اِس سے زیادہ وسیع ہے۔ روحانیت در اصل، ربّانیت (divine culture) کانام ہے۔ روحانیت کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ روحانیت، دوسرے لفظوں میں، خدا رُخی زندگی(God-oriented life) کانام ہے۔ روحانیت یہ ہے کہ آدمی اعلیٰ شعوری سطح پر سچائی کی معرفت حاصل کرے۔ فکری عمل کے ذریعے وہ اپنے اندر ربّانی شخصیت پیدا کرے۔ وہ سچائی کو ابدی حقیقت کی صورت میں دریافت کرے۔ وہ محدود مادّی دنیا سے اوپر اٹھ کر سچائی کو اس کی آفاقی صورت میں پالے۔ وہ زندگی کی معنویت کو دریافت کرکے پوری طرح ایک بامقصد انسان بن جائے۔
سی پی ایس انٹر نیشنل اپنے فکر کے اعتبار سے ایک آفاقی تحریک ہے اور اپنے مزاج کے اعتبار سے انسان فرینڈلی مزاج رکھتی ہے۔ سی پی ایس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے محدود دائرے سے اٹھ کر کائناتی کلچر کا حصہ بن جائے۔ وہ امن اور روحانیت اور حقیقت شناسی کی لامحدود دنیا میں جینے لگے۔