نقل اور عقل
ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں :سلفی اصول ہے تقدیم النقل علی العقل، اس کے مقابلے میں معتزلہ و متکلمین تقدیم العقل علی النقل کرتے ہیں۔ اس معاملے میں آپ کا منہج کیا ہے۔ علاماتِ قیامت کی تشریح کےلیے آپ نے کس منہج کو اختیار کیا ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
میں اس معاملے میں اصولاً سلفی مسلک کو درست سمجھتا ہوں۔ البتہ اس معاملے میں میرے الفاظ مختلف ہوتے ہیں۔ یعنی الفاظ کے فرق کے ساتھ میں علمائے سلف کے مسلک کو اصولاًدرست مانتاہوں، اور متکلمین و معتزلہ کا مسلک میرے نزدیک درست مسلک نہیں۔میرے مطالعے کے مطابق نقل (قرآن اور سنت) کو علم کے اصل ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاملے میں جو لوگ عقل کو مقدم قرار دیں، اور نقل کو اس کے تابع کی حیثیت دے دیں، وہ بلاشبہ غلطی پر ہیں۔ تاہم میں ایسے لوگوں کی تکفیر کا قائل نہیں ہوں۔ البتہ میں اس کو ضروری سمجھتا ہوں کہ علمی مباحثہ کے ذریعہ ان کی غلطی کو واضح کیا جائے۔میرے مطالعے کے مطابق، علوم عقلیہ کی حیثیت تائیدی علم کی ہے، نہ کہ مستقل ماخذ کی حیثیت۔ میں علیٰ وجہ البصیرۃ یہ مانتا ہوں کہ نقل میں اور حقیقی عقل میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ تاہم اگر بالفرض دونوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ پیش آئے تو میں بلاتوقف نقل کو ترجیح دوں گا، اور عقل کو چھوڑ دوں گا۔
میں نے کثیر تعداد میں چھوٹی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ ان تمام کتابوں کا مشترک موضوع ہے اسلام کی تعلیمات کو عصری ذہن کے لیے قابلِ فہم بنا نا۔ میرا یہ کام کسی قسم کی مرعوبیت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ کامل یقین کی بنا پر ہے۔ میں نے اپنے مطالعے میں کبھی ایسی کوئی چیز نہیں پائی جو حقیقی اسلام اور ثابت شدہ عقل کے خلاف ہو۔ نقل سے میری مراد قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں۔ بعد کے علما کے بارے میں میرا مسلک وہی ہے جو امام مالک کا مسلک تھا۔ ان کا مشہورقول ہے: کل أحد یؤخذ من قولہ ویترک إلا صاحب ہذا القبر (سیر اعلام النبلاء،7/178)۔