چشمہ کا سبق
1989 کے وسط میں میں نے کشمیر کا سفرکیا۔ایک روز میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سرینگر کے باہر گیا۔ ہم لوگ ایک کھلی وادی میں تھے۔ سامنے پہاڑی سلسلے دکھائی دیتے تھے۔ ان پہاڑوں سے نکلنے والے چشمے میدان میں ہر طرف بہہ رہے تھے۔ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ دیکھیے یہ سیکڑوں چشمے جو یہاں بہہ رہے ہیں، وہ فطرت کی زبان میں آپ کو ایک بے حد اہم پیغام دے رہے ہیں۔ وہ پیغام یہ ہے کہ ٹکراؤ سے اعراض کرکے اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
پھر میں نے کہا کہ ان بہتے ہوئے چشموں کے راستے میں جگہ جگہ پتھر موجود ہیں۔ یہ پتھر بظاہر ان کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ اگر چشمے ایسا کریں کہ وہ پتھر کو توڑ کر سیدھ میں آگے جانا چاہیں، تو ان کاسفر اچانک رک جائے گا۔ ان چشموں نے اس مسئلے کا یہ فطری حل نکالا ہے کہ وہ پتھر کے دائیں یا بائیں مڑ کر آگے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ان کا راستہ ایک لمحہ رکے بغیر جاری رہتا ہے۔
یہ اہلِ کشمیر کے لیے فطرت کا ایک عظیم سبق ہے۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی چٹانوں سے ٹکرانے کا ذہن ختم کردیں، اور ان سیاسی چٹانوں کی موجودگی میں جو مواقع آپ لوگوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں، ان کو استعمال کریں۔یہی انسان کے لیے اس دنیا میں کامیاب سفر کا واحد طریقہ ہے۔ جس طرح بہتے ہوئے چشمے کے راستے میں پتھر ہوتے ہیں، اسی طرح ہر فرد اور ہر گروہ کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں موجود ہوتی ہیں۔ عقل مندی یہ ہے کہ آدمی پیش آنے والی رکاوٹوں سے نہ ٹکرائے، وہ رکاوٹوں سے اعراض کرتے ہوئے اپنا سفر مسلسل جاری رکھے۔ رکاوٹوں سے ٹکرانا، سفر کو روک دینے کے ہم معنی ہے۔ اس کے برعکس، رکاوٹوں سے اعراض کرنا، بلاتوقف اپنے سفر کے لیے مواقع حاصل کرنا ہے۔ یہ اس دنیا کے لیے فطرت کا قانون ہے۔ اس قانون سے لڑنا، خود فطرت کے نظام سے لڑنا ہے، اور کون ہے، جو فطرت سے لڑ کر کامیاب ہوسکے۔