لائن آف ایکشن کا مسئلہ
1947 میں جب ہندستان آزاد ہوا تو اس کے بعدتمام مسلمانوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ نئے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے لائن آف ایکشن کیا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس موضوع پر ہزاروں تحریریں سامنے آئیں اور ہزاروں جلسے کیے گئے۔ مگر آج بھی لوگ یہی پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کیا ہونا چاہیے۔
میرے نزدیک یہ مسئلہ لائن آف ایکشن کی غیر موجودگی کا نہیں ہے بلکہ لائن آف ایکشن کے موجود ہوتے ہوئے اس کو عملاً قبول نہ کرنے کا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے بار بار مختلف جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں اس سوا ل کا جواب دیا گیا ہے مگر آج تک کسی بھی جوا ب کو مسلمانوں میں عمومی قبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے 1948 میں لکھنؤ میں مشہور مسلم کنونشن کیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد نے جو تقریر کی تھی وہ آج بھی چھپی ہوئی موجود ہے۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے مسلمانان ہند کے سامنے یہ لائحۂ عمل پیش کیا کہ وہ مسلم لیگ کو توڑ دیں اور نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہندستان کے مسلمان فرقہ وارانہ بنیاد پر اپنی ملی پالیسی نہ بنائیں بلکہ اپنی پالیسی مشترک قومی بنیاد پر بنائیں۔ نمائندگی کے اعتبار سے لکھنؤ کا یہ آل انڈیا مسلم کنونشن نہایت کامیاب تھا۔ مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان مولانا آزاد کے مشورہ کو اپنی ملی پالیسی کے طورپر اختیار کرلیں۔ ان کی ولولہ انگیز تقریر فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔
اسی طرح نہایت دھوم کے ساتھ آل انڈیا مسلمِ مجلس مشاورت (1964) بنی۔ ملک کے تقریباً تمام مسلم رہنما اس کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے۔ مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت نے متفقہ طورپر ایک مسلم منشور تیار کرکے شائع کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کے مسلمان اس ملک میں خیرِ امت کا کردار ادا کریں۔ مگر اس عنوان پر مسلمان عملاً متحرک نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ خود مسلم مجلسِ مشاورت بے اثر ہوکر رہ گئی۔
یہی معاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (1972) کا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بانی قائدین کے زمانہ میں متفقہ طورپر تعمیر ِ ملت اور اصلاحِ معاشرہ کی تجویز پاس کی۔ اس پر کافی حد تک وہ کام بھی ہوا جس کو پیپر ورک کہا جاتا ہے۔ مگر یہ لائحۂ عمل بھی مسلمانوں کے درمیان عملی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔اس طرح کچھ مسلم قائدین نے نہایت دھوم کے ساتھ وہ تحریک شروع کی جو پیام ِانسانیت (1951) کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان خود انسانی اقدار کو اپنائیں اور برادرانِ وطن کو انسانی اقدار کی پیروی کی دعوت دیں۔ مگر جلسوں کی وقتی دھوم دھام کے علاوہ اس کا بھی کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلا۔ انسانی اقدار کی پیروی کی فضا نہ مسلمانوں میں قائم ہوسکی اور نہ غیر مسلموں میں۔
اسی طرح1990 میں بابری مسجد کے نام پر جلسہ اور جلوس اور ریلی کے زبردست ہنگامے شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہوگیا۔ اس تحریک کے مسلم لیڈروں نے یہ نعرہ دیا کہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مارچ کرکے اجودھیا پہنچیں اور حملہ آور وں کے مقابلہ میں بابری مسجد کی حفاظت کریں۔ مگر اس مقصد کے لیے نہ چھوٹا مارچ ہوا اور نہ بڑا مارچ۔ یہاں تک کہ ’’حملہ آور‘‘ کسی مزاحمت کے بغیر 6دسمبر 1992 کو اجودھیا میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بابری مسجد کے ڈھانچہ کو توڑ کر اس کی جگہ ایک عارضی رام مندر تعمیر کر دیا۔
اسی طرح کچھ ممتاز مسلم لیڈروں نے یہ لائحۂ عمل دیا کہ مسلمان اس ملک میں باعزت زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت کو اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرانے کے لیے استعمال کریں۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اردو شاعر کا یہ شعر سنایا:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری
ہر بار جب اسمبلی اور پارلیمنٹ کا الیکشن ہوتا ہے تو وہ وقت آتا ہے جب کہ مسلمان اس لائحۂ عمل کو اختیار کرکے مفروضہ اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرائیں اور مفروضہ پرومسلم پارٹیوں کو جتائیں۔ مگر ہر بار صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ اپنے عدمِ اتحاد کی بنا پر منتشر ہوجاتا ہے۔ مذکورہ سیاسی مقصد حاصل کرنے کے بجائے مسلمان صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ ہر الیکشن کے موقع پرتقسیم ہو کرووٹ کی طاقت کو ضائع کردیتے ہیں۔ الیکشن ان کے ووٹوں کا ایک سیاسی قبرستان بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی معاملہ جمعیۃ علماء ہند کا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے تقریباً ہر موقع پر یہ لائحہ عمل پیش کیا ہے کہ مسلمان ایسا طریقِ کار نہ اختیار کریں جس میں ہندو اور مسلم کے درمیان ٹکراؤ کی فضا بنے۔ اس کے بجائے وہ خاموش تدبیر اور تعمیری اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اپنا مسئلہ حل کریں۔ مگر ہر بار یہی ہوا ہے کہ مسلمان جمعیۃ علماء ہند کے بتائے ہوئے اس لائحۂ عمل کو اختیار نہیں کر پاتے۔ گویا لائحہ عمل موجود ہے مگر لائحۂ عمل کی قبولیت اور پیروی موجود نہیں۔
اس فہرست میں کسی قدر فرق کے ساتھ خود الرسالہ مشن کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت مسلمانوں کے سامنے نہایت واضح اور مدلّل انداز میں 1976 سے یہ لائحہ عمل پیش کیا جارہا ہے کہ مسلمان کا اصلی اور ابدی مشن دعوت ہے۔ اس ملک میں مسلمان اور برادران وطن کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے اپنے اس فریضہ کو پہچانیں۔ وہ دعوت کے آداب اور دعوت کی حکمتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ملک میں دین حق کی پر امن پیغام رسانی کا کام انجام دیں۔ مگر رُبع صدی سے زیادہ مدت تک مسلسل جدوجہد کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی صرف ایک محدود تعداد ہی نے اس راہ ِعمل کوعملاً اختیار کیا ہے۔
یہ طویل تجربہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ راہ عمل کی غیر موجودگی نہیں ہے بلکہ جذبۂ قبولیت کی غیر موجودگی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے درمیان حقیقی کام کا آغاز صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ تقریر یا تحریر کی صورت میں ایک راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کا اعلان کردیا جائے۔ موجودہ حالات میں اس کے لیے شعوری تعمیر اور ذہنی بیداری کی ایک مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پہلے شعوری اعتبار سے لوگوں میں مادّۂ قبولیت پیدا کیجیے، اُس کے بعد ہی راہِ عمل کے اعلان کا کوئی مفید عملی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں۔