انسان رخی سوچ

ایک صاحب لکھتے ہیں : اس وقت ملکی حالات کافی کشیدہ ہیں۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ملک میں دستور سازی کا الیکشن ہونے والا ہے۔ مسلمانوں کی شمولیت اچھی ہو اور مسلمانوں کے حق میں بھی ضابطے بنیں، ابھی تک تو مسلمان دستور کے اعتبار سے ملک میں برائے نام ہیں۔ بس دعا اور رہ نمائی کی درخواست ہے (ایک قاری الرسالہ، نیپال)۔

ماہ نامہ الرسالہ میں مسلسل طورپر جو ذہن دیا جاتا ہے، وہ اِس سے مختلف ہے۔ ہم کسی ملک کو اِس لحاظ سے نہیں دیکھتے کہ مسلمان وہاں اکثریت میں ہیں یا اقلیت میں۔سیاسی اعتبار سے وہاں کے ماحول میں کشیدگی ہے، یا کشیدگی نہیں ہے، یا یہ کہ دستور اور قانون میں مسلمانوں کو کیا حقوق دیے گئے ہیں، اور کیا حقوق نہیں دیے گئے ہیں۔ یہ سب باتیں ہمارے نزدیک اضافی (relative)ہیں۔

اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ ہر ملک انسانوں کا ملک ہے۔ ہر ملک میں فطری طورپر مسائل ہوتے ہیں، خواہ وہ نام نہاد مسلم ملک ہو، یا غیر مسلم ملک۔ اِسی طرح ہم یہ بھی نہیں مانتے کہ کسی کو اس کے حقوق، دستور اور قانون کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ کسی کو اُس کا حق خود اپنی ذاتی استعداد کی بنیاد پر ملتا ہے، نہ کہ کسی کے عطیہ کی بنیاد پر۔

کسی نقطۂ نظر کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر نہ احساسِ برتری (superiority complex)پیدا کرے، اور نہ وہ احساسِ کم تری (inferiority complex) پیدا کرنے کا سبب بنے۔ اور مذکورہ نقطۂ نظر اِس معیار کے اوپر کامل طورپر پورا اترتا ہے۔ احساسِ برتری اور احساسِ کم تری دونوں یکساں طور پر مہلک ہیں۔ مذکورہ نقطۂ نظر،انسان کو اِن دونوں برائیوں سے بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ہمارا ماننا ہے کہ آدمی کو خدا کے اعتماد پر جینا چاہیے، نہ کہ سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار پر۔ سیاسی اور سماجی حالات خواہ کچھ ہوں، لیکن جس آدمی کو خدا پر حقیقی اعتماد ہو، وہ ہر حال میں یکساں طورپر مثبت نفسیات کا مالک بنا رہے گا۔ اس کی شخصیت کی تشکیل، اس کی اپنی داخلی سوچ کی بنیاد پر ہوتی ہے، نہ کہ خارج میں پائی جانے والی کسی موافق یا غیر موافق صورتِ حال کی بنیاد پر۔

سیاسی یا غیر سیاسی مسائل چوں کہ بظاہر کچھ انسانوں کی طرف سے پیش آتے ہیں، اِس لیے لوگ ان کو انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ لیتے ہیں اور اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا ہنگامہ شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بلا شبہہ ایک مہلک قسم کی غلط فہمی ہے۔ یاد رکھیے، ہر مسئلہ، خواہ وہ سیاسی ہو، یا غیر سیاسی، وہ ہمیشہ نظامِ فطرت کا ایک حصہ ہوتا ہے، نہ کہ محض کسی انسان کا ظلم، یا اس کی سازش۔

موجودہ زمانے کے مسلمان، اُن کے بڑے اور چھوٹے، سب زندگی کے اِس راز سے بے خبر ہیں۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو نفرت اور شکایت کی نفسیات سے خالی ہو۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اِس منفی نفسیات سے اپنے کو پاک کریں۔ جب تک ایسا نہ ہو، مسلمانوں کے اوپر سعادت کے دروازے بند رہیں گے، جیسا کہ اِس وقت وہ ان کے اوپر بند ہیں۔ یہ بظاہر ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن اِس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے ہی میں مسلمانوں کے لیے تمام بھلائیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔

اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شکایت، شکر کی قاتل ہے۔ جو آدمی شکایت کی نفسیات میں مبتلا ہو، وہ کبھی حقیقی شکر کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی نصرتیں صرف شکر کرنے والے بندوں کے لیے مقدر ہیں۔ شکر نہیں تو نصرت بھی نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom