ایک سوال

اکثر علماء یہ سوال کرتے ہیں کہ صاحب الرسالہ کا منہج اخذ واستدلال کیا ہے؟ اس سلسلے میں جواب مطلوب ہے۔ (حافظ سید اقبال عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)

جواب

اس معاملہ میں ہمارا منہج وہی ہے جو عملاً تمام علما کا معروف منہج ہے۔ اس منہج کی اصل صحابی رسول حضرت معاذ بن جبل کی حدیث میں موجود ہے۔ یہ حدیث سنن الترمذی، ابوداوود، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الیَمَنِ، فَقَالَ:کَیْفَ تَقْضِی؟، فَقَالَ:أَقْضِی بِمَا فِی کِتَابِ اللہِ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِی کِتَابِ اللہِ؟، قَالَ:فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِی سُنَّةِ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ:أَجْتَہِدُ رَأْیِی، قَالَ: الحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر1327)۔

معاذ بن جبل کے بعض ساتھیوں سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو پوچھا: تم کس طرح فیصلہ کرو گے۔ انہوں نے کہا اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے پوچھا: اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ؟ انھوں نےکہاکہ رسول اللہ کی سنت کے مطابق (فیصلہ کروں گا)۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اگر سنتِ رسول میں بھی نہ پاؤ؟ انھوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا: اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے رسول اللہ کے رسول کو اس چیز کی توفیق دی۔

اس حدیث کو بعض علماء نے ضعیف بتایا ہے۔ لیکن یہ تضعیف خالص فنی بنیاد پر ہے۔ چناں چہ دوسرے علما ءنے اس کی تصحیح کی ہے، مثلاً ابن القیم الجوزیہ۔ اس فنی بحث سے الگ ہوکر دیکھا جائے تو عملاً تمام علماء نے اس روایت کو تسلیم کیا ہے۔ کیوں کہ تمام علماء کے متفقہ مسلک کے مطابق مصادر شریعت چار ہیں، قرآن، سنت، قیاس، اور اجماع۔ یہ مسلک عین معاذ بن جبل کی روایت کے مطابق ہے۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ باعتبار حقیقت مصادر شریعت چار نہیں ہیں، تین ہیں۔ کیوں کہ قیاس اور اجماع دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ جب قیاس کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد انفرادی قیاس ہوتا ہے اور جب اجماع کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد اجتماعی قیاس۔ قیاس اور اجماع دونوں کی اصل اجتہاد ہے۔

یہاں میں اضافہ کروں گا کہ قرآن میں اجتہاد کا لفظ نہیں آیا ہے۔ البتہ اس کے ہم معنی دوسرالفظ آیا ہے، اور وہ استنباط (النساء، 4:83)ہے۔اجتہاد اور استنباط دونوں کا مشترک مفہوم ایک ہے، اوروہ استخراج (inference)ہے۔ جب کسی معاملہ میں حکم شرعی منصوص انداز میں موجود ہو تو وہاں کسی اجتہاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن جب کسی معاملہ کا حکم بشکل نص موجود نہ ہو تو وہاں ضرورت ہوتی ہے کہ غور و فکر کرکے متعلقہ معاملہ میں حکم کی شرعی تطبیق (application) کو دریافت کیا جائے۔ اسی عمل کو استخراج کہا جاتا ہے۔ یعنی نص شرعی کے حدود میں رہتے ہوئے، بطریق استنباط متعلقہ معاملہ کا حل تلاش کرنا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom