صاحبِ مطالعہ انسان
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جدید معیار کے مطابق، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ان کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ وہ زیادہ تر انگریزی ناولیں پڑھتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ سنجیدہ موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ اُن کا کمرہ انگریزی کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے سیکڑوں ناولیں اور کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس مطالعے کے دوران آپ نے بہت سی بامعنی باتیں پڑھی ہوں گی۔ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بتائیے۔ وہ بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ میں نے ایسی بہت سی باتیں پڑھی ہیں، مگر وہ کوئی ایک بامعنی بات نہ بتا سکے۔ میں نے کئی مثالیں دے کر بتایا کہ بامعنی بات سے میری مراد کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔
اِس قسم کا تجربہ مجھے بار بار ہوا ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملاہوں جو اپنے آپ کو صاحبِ مطالعہ سمجھتے ہیں۔ وہ سفراور حضر میں کتابیں، خاص طورپر ناولیں پڑھتے رہتے ہیں۔ وہ جوش کے ساتھ ان کتابوں کی تعریف کریں گے، لیکن جب یہ پوچھا جائے کہ کوئی ایک سبق کی بات، یا بامعنیٰ بات بتائیے جو آپ نے ان کتابوں کے مطالعے سے پائی ہو تو وہ ایسی کوئی بات نہیں بتا پاتے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ کتابوں کو تفریح (entertainment) کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ کتابوں کو اِس لیے نہیں پڑھتے کہ اس سے حکمت (wisdom) اور نصیحت کی چیزیں دریافت کریں اور مطالعے کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں۔ اور جب مطالعے کا مقصد تفریح ہو، تو وہ حکمت کے حصول کا ذریعہ کیسے بن جائے گا۔ اِن لوگوں سے جب یہ کہا جائے کہ آپ کواپنے مطالعے میں کوئی حکمت کی بات اِس لیے نہیں ملی کہ آپ نے صرف تفریح کے لیے مطالعہ کیا تھا، تو وہ ہر گز اِس کا اعتراف نہیں کریں گے۔ اِس بے اعترافی کا سبب کبرِ خفی ہے۔ یہی کبرِ خفی لوگوں کے ذہنی ارتقا میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔