روحانی ارتقا
میں ذاتی طورپر اسپریچول ڈیولپمنٹ کو بہت اہمیت دیتا ہوں، لیکن میرے نزدیک اسپریچول ڈیولپمنٹ ایک مائنڈ بیسڈ ڈسپلن (mind-based discipline) ہے، نہ کہ ہارٹ بیسڈ ڈسپلن (heart-based discipline)۔ مبنی بر قلب میڈیٹیشن آدمی کو وجد (ecstasy) تک لے جاتا ہے۔ جب کہ مبنی برذہن میڈیٹیشن آدمی کو انٹلیکچول ڈیولپمنٹ تک پہنچاتا ہے، اور انٹلیکچول ڈیولپمنٹ ہی پیس آف مائنڈ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
روحانیت کا اصل مقصد معرفت ہے، اور معرفت کا دائرہ اتنا بڑا ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور(1861-1941)نے اپنی کتاب گیتانجلی میں لکھا تھا، بینا کے تاروں کو سلجھانے میں ساری عمر بیت گئی، جو انتم گیت میں گانا چاہتا تھا، نہ گا سکا۔
جو آدمی ابھی صرف متلاشی (seeker)ہو، وہ گویا قبلِ معرفت کے دور میں ہے۔ اس کے لیے بھی تلاش معرفت ایک لامحدود میدان کی حیثیت رکھتا ہے، اور جو انسان معرفت کی دریافت تک پہنچ گیا ہو، اس کے لیے بھی معرفت کا میدان ایک لامحدود میدان ہے۔ اس لامحدود میدان کو پار کرنا، دونوں ہی کا سب سے بڑا کنسرن ہوتا ہے۔
روحانی ارتقا (spiritual development)کا قرآنی نام ربانی ارتقا (Rabbani development) ہے۔ یہ ربانی ارتقا کسی انسان کی فطرت کی سب سے بڑی تمنا ہوتی ہے۔ ایک انسان جو مادیات سے اوپر اٹھ گیا ہو، وہ محسوس کرتا ہے کہ میرے ذہن میں جو خیالات آتے ہیں، ان کو ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ وہ مسلسل طور پر اسی احساس میں جیتا ہے جس کا ایک نمونہ ٹیگور کے مذکورہ الفاظ میں موجود ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے سب سے بڑی چیز جو چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایکسپرس (express)کرسکے۔ مگر ذہنی ارتقا کا ہر درجہ اس کو صرف یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی دریافت کو الفاظ میں بیان کرنے سے عاجز ہے۔
انسان کا یہی احساس جنت کی سب سے بڑی دریافت ہے۔ انسان سب بڑی چیز جو چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایکسپرس کرسکے۔ مگر انسان اس میدان میں جتنا زیادہ کوشش کرتا ہے، اتنا ہی اس کا یقین بڑھتا چلا جاتا ہےکہ وہ اس دنیا میں اپنے آپ کو ایکسپرس (express) کرنے پر قادر نہیں۔ یہ گویا اس دنیا میں جنت کا ایک سراغ (clue) ہے۔ آدمی اگر اس سراغ پر گہرائی کے ساتھ غور کرے تو وہ یقینا ًجنت کی دریافت تک پہنچ جائے گا۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ(51:49)۔ یعنی اور ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ تخلیق کا یہ پہلو گویا جنت کا ایک یقینی سراغ ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے انسان اس دریافت تک پہنچتا ہے کہ موجودہ دنیا کے بعد یقیناً ایک اور دنیا ہے، اسی دوسری دنیا کو جنت کہا گیا ہے۔ جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت موجودہ دنیا کی کمی کی تکمیل ہے۔ جنت میں وہ تمام اسباب اپنی اعلیٰ ترین شکل میں موجود ہوں گے، جہاں انسان اپنی خواہشات کو پالے :وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31)۔یعنی اور تمہارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔ یقینا ًانسان کی اس خواہش کی تکمیل بھی وہاں موجود ہوگی، جس کو ہم نے اپنی ہستی کا کامل اظہار کہا ہے۔
جنت میں انسان اپنی ارتقا یافتہ ہستی کے ساتھ داخل ہوگا۔ جنت میں انسان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ ان حقیقتوں کو دریافت کرسکے، جن کو وہ دنیا کی زندگی میں دریافت کرنے میں ناکام رہا تھا۔ مزید یہ کہ جنت میں انسان کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنی دریافت کردہ باتوں کو الفاظ کی صورت میں بیان کرسکے۔ جنت انسان کے لیے مقامِ راحت بھی ہے اور اس بات کا مقام بھی کہ وہ اپنی اعلیٰ دریافتوں کو بیان کرنے کے لیے اعلیٰ الفاظ پالے۔ جنت انسان کی شخصیت کی تکمیل کا مقام ہے، ہر اعتبار سے تکمیل، ایک ایسی تکمیل جس کے بعد کوئی چیز غیر مکمل حالت میں باقی نہ رہے۔ جنت انسان کے لیے اپنی آرزؤں کی تکمیل بھی ہے اور اپنےرب کی اعلی دریافت بھی۔