الرسالہ مشن کے متعلق بعض سوالات

1۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ اپنی تحریروں اور تقریروں میں ہمیشہ اسلام کے نظریاتی پہلو کو بیان کرتے ہیں۔ اسلام کا جو عملی پہلو ہے اس کو آپ بیان نہیں کرتے۔ آخر یہ تفریق کیوں۔

میں نے کہا کہ عمومی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ میں نے اسلام کے تقریباً ہر موضوع پر لکھا ہے۔ مثلاً نماز اور روزہ اور حج جیسے موضوعات پر میری کئی کتابیں موجود ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ میں اسلام کے نظری پہلوؤں پر زیادہ زور دیتا ہوں۔ نظری پہلو سے میری مراد ہے اسلام کی داخلی اسپرٹ، یعنی اسلامی طرزِ فکر پیدا کرنا، لوگوں کے اندر اسلامی جذبہ ابھارنا، اسلام کی صحیح اسپرٹ کو زندہ کرنا۔ یہ میری توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے۔ یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ آپ کو یہ بات قابلِ اعتراض اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ آپ ہمارے مشن کو امت کی سرگرمیوں سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ ہمارے مشن کو امت کی عمومی سرگرمی میں شامل کرکے دیکھیں تو آپ کا اعتراض اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔

اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ملتِ مسلمہ کے احیاء کی تحریک عالمی سطح پر چل رہی ہے۔ اس میں امت کے تمام درد مند افراد شریک ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے میں پایا کہ احیاءِ ملت کی یہ تحریکیں ننّانوے فیصد کی حد تک اُسی پہلو پر چل رہی ہیں جس کو آپ اسلام کا عملی پہلو کہہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیے تو ان میں سے کوئی نماز اور روزہ اور حج جیسے اسلامی اعمال کا نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کسی نے اسلام کے سماجی پہلوؤں پر اپنی توجہ لگا رکھی ہے۔ کوئی اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مسجد اور مدرسے کے نظام کو قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کوئی مسلمانوں کے خاندانی نظام کو اسلامی احکام پَر تشکیل دینا چاہتا ہے۔ کوئی ملّی مسائل، یا کمیونٹی ورک کے میدان میں محنت کررہا ہے، وغیرہ۔ لیکن میں نے اپنے تجربے میں پایا کہ کوئی بھی عصری اسلوب میں اسلام کی اسپرٹ کو جگانے کاکام نہیں کررہا ہے۔ اس لیے ہم نے اپنے آپ کو اس چھوٹے ہوئے کام میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ ہمارا مشن احیاءِ ملت کے مجموعی کام میں ایک تتمّہ (supplement) کی حیثیت رکھتا ہے۔

موجودہ حالات میں یہی چیز ممکن اور قابلِ عمل ہے۔ احیاءِ ملت کا موجودہ کام جو عالمی سطح پر انجام پارہا ہے اس کی حیثیت ایک پراسس (process) کی ہے۔ اِس پر اسس میں ساری تحریکیں اور سارے اجزائے ملّی شریک ہیں۔ ہمارا مشن بھی اِس پراسس کا ایک حصہ ہے۔ یہ پراسس گویا کہ ایک بلا اعلان تقسیمِ کار کا معاملہ ہے۔ اِس پراسس کے مختلف اجزا میں سے کوئی ایک بھی ساری ملی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا اور نہ کررہا ہے۔ ہر ایک کسی ایک پہلو سے ملت کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ ہر ایک کو اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انعام ملے گا۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملّت کے اندر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری ضرورتوں کی طرح، تنقید بھی ملت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ تنقید، حدیثِ رسول (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4918)کے الفاظ میں الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ (مومن مومن کے لیے آئینہ ہے) کے اصول کی تکمیل ہے۔ علمی تنقید ہمیشہ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر علمی تنقید کا طریقہ ختم کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں صرف یہی نہیں ہوگا کہ علمی تنقید باقی نہ رہے گی، بلکہ ذہنی ارتقا کا عمل رک جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی جمود پیدا ہو جائے گا جو کسی گروہ کے لیے سمّ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

2۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ کا مشن ایک فکری مشن ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارا نشانہ یہ ہے کہ ہم اسلام کو عصری اسلوب میں پیش کریں۔ اِس طرح ہم کچھ لوگوں کے لیے اسلام کو ان کی ڈسکوری بنانا چاہتے ہیں، اور کچھ لوگوں کے لیے اسلام کو ان کی ری ڈسکوری۔ آپ کی اِس فکری مہم میں مسلمانوں کا کیا درجہ ہے۔ کیا آ پ مسلم اور غیر مسلم کو اِس معاملے میں برابر کی حیثیت دیتے ہیں یا آپ کے نزدیک مسلمانوں کو کوئی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔

قرآن اور حدیث کے مطابق، ہماری رائے یہ ہے کہ جہاں تک آخرت کی جزا اور سزا کا معاملہ ہے، اس میں دونوں گروہوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات قرآن کی اِس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے:لَیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِہِ(4:123) یعنی نہ تمھاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو کوئی بھی بُرا کرے گا وہ اس کا بدلہ پائے گا۔

یہ عقیدہ بالکل بے بنیاد ہے کہ مسلمان خود اپنی پیدائش کے اعتبار سے ’’منتخب گروہ‘‘ بن چکے ہیں۔ اور ان کی جنّتیں رزرو (reserve)ہیں۔ یہ عقیدہ سر تا سر بے بنیاد ہے۔ یہ عقیدہ بھی ایک بے بنیاد عقیدہ ہے کہ کچھ ظاہری رسوم ورواج کی تعمیل، یا کسی کلچرل شناخت کو اختیار کرناآدمی کو جنت کا سرٹفکیٹ دے دیتا ہے۔ جنت نفوسِ مزکّیٰ کے لیے ہے، نہ کہ کسی کلچرل گروہ کے لیے (طٰہٰ، 20:76)۔البتہ ایک اور پہلو ہے جس کے اعتبار سے مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں موافق حیثیت (advantageous position) حاصل ہے۔ وہ یہ کہ دوسروں کے برعکس، مسلمانوں کا ذہن اسلام کے خلاف تعصّب سے خالی ہوتا ہے۔ اِس بنا پر مسلمان ممکن طورپر اس قابل رہتے ہیں کہ وہ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر اِس بارے میں غور وفکر کا صحیح نقطۂ آغاز پالیں۔

حدیث میں آیا ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اس کو یا تو یہودی بنا دیتے ہیں۔ یانصرانی بنا دیتے ہیں، یا مجوسی بنادیتے ہیں۔

اصل یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا کسی خاندان میں پیداہوتا ہے اور کسی سماج میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی بچپن ہی سے متاثّر ذہن کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر آدمی بلا استثنا کنڈیشننگ کا ایک کیس ہوتا ہے۔ آدمی کی کنڈیشننگ جس ماحول میں ہوتی ہے، اُسی ماحول کے اعتبار سے اس کی شخصیت بن کر تیار ہوتی ہے۔ کنڈیشننگ کے اِس عمل کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کو اپنے خاندانی مذہب کے ساتھ متعصبانہ حد تک جذباتی تعلق ہوجاتا ہے، اور دوسرے مذہب کے بارے میں وہ منفی ذہنیت کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ کنڈیشننگ کسی غیر مسلم کے لیے اس میں رکاوٹ بن جاتی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں غیر متاثر ذہن کے ساتھ سوچ سکے۔

اِس معاملے میں مسلمان ایک مستثنیٰ حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مخالفانہ احساس سے خالی ہوکر اسلام کا مطالعہ کرسکے۔ اِس طرح ایک مسلمان کو اسلام کے مطالعے کے لیے ایک موافق نقطۂ آغاز مل جاتا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے اور کسی قسم کی نفسیاتی رُکاوٹ کے بغیر اسلام کی صداقت اس کے ذہن میں بیٹھتی چلی جائے۔

3۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ — الرسالہ کا انداز غیر معتدل انداز ہے۔ آپ اُس میں ہمیشہ مسلمانوں کو صبر اور تقوی کی ’’نصیحت‘‘ کرتےہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور سازشوں پر آپ کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ جب کہ دوسرے مسلم اہلِ علم اور رہنما، اعتدال کا طریقہ اپناتے ہوئے ہمیشہ دونوں فریقوں کی غلطی کو بتاتے ہیں۔

میں نے کہا کہ الرسالہ کا انداز قرآنی انداز ہے، وہ ہر گز غیر معتدل انداز نہیں۔ اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے غزوۂ احد (3 ہجری) کی مثال دی۔ میں نے کہا کہ مشرکین نے مکہ سے چل کر چار سو کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ اور یک طرفہ طورپر انھوں نے مدینہ میں مقیم مسلمانوں پر جارحانہ اقدام کرکے انھیں جنگ کرنے پر مجبور کردیا۔ اِس جنگ میں اپنی ایک غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ ستر صحابہ شہید ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مخالفین کے پتھراؤ کی وجہ سے شدید طورپر زخمی ہوگیے۔

اِس کے باوجود قرآن میں جب اِس واقعہ پر تبصرہ نازل ہوا تو اُس میں یک طرفہ طورپر ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالتےہوئے کہاگیا: حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ وَعَصَیْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاکُم مَّا تُحِبُّونَ (3:152)۔ یعنی جب تم خود کمزور پڑ گئے اور تم نےکام میں جھگڑا کیااور تم کہنے پر نہ چلے جب کہ اللہ نے تم کو وہ چیز دکھا دی تھی جو تم چاہتے تھے۔

میں نے کہا کہ آپ کے نزدیک ایسے موقع پر معتدل انداز یہ تھا کہ دونوں فریقوں پر تبصرہ کیا جاتا۔ پہلے مشرکینِ مکہ کے جارحانہ اقدام کی کھلے طورپر مذمت کی جاتی اور اُس کے بعد مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے ان کی کمزوری بتائی جاتی۔ حالاں کہ قرآن کے اِس تبصرے میں ایسا انداز نہیں ہے۔ اِس میں مشرکینِ مکہ کے جارحانہ اقدام کا سرے سے کوئی ذکر موجود نہیں، بلکہ اِس آیت میں ساری ذمے داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے، اور کہاگیا ہے کہ احد کی شکست کسی دشمن کی سازش اور ظلم کا نتیجہ نہ تھی۔ یہ شکست خود تمھاری اپنی کمزوری کا نتیجہ تھی۔

میں نے کہا کہ اگر آپ قرآن کے اِس تبصرے کو درست سمجھتے ہیں تو آپ کو یقیناً الرسالہ کے انداز ہی کو صحیح انداز سمجھنا چاہیے۔ الرسالہ کا انداز خالص قرآنی انداز ہے، نہ کہ غیر معتدل انداز۔

میں نے کہا کہ قرآن میں واضح طورپر یہ آیت موجود ہے: وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا(3:120)۔یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو (مخالفین) کی کوئی بھی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔ اِس آیت سے واضح طورپر یہ ثابت ہوتاہے کہ اہلِ ایمان کے لیےاصل مسئلہ سازش کا ہونا نہیں ہے، بلکہ صبر اور تقوی کا نہ ہونا ہے۔ اگر کسی گروہ کے اندر صبر اور تقوی کی صفت موجود ہے تویہ صبر اور تقوی ان کے لیے ہر سازش کے خلاف ایک چیک بن جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر کوئی مسلم گروہ کسی مخالف گروہ کی سازش کا نشانہ بنے تو قرآن کے مطابق، لازماً یہ یقین کرنا چاہیے کہ صبر اور تقوی کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ سازش کی موجودگی نقصان کا سبب نہیں، بلکہ صبر اور تقوی کی عدم موجودگی نقصان کا اصل سبب ہے۔ اس لیے تمام لکھنے اور بولنے والوں کو صبر اور تقوی کی اسپرٹ جگانے پر مصروف ہونا چاہیے، نہ یہ کہ وہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف بے فائدہ طورپر احتجاج اور شکایت کی مہم میں لگ جائیں۔ صبر اور تقوی کامیابی کی واحد ضمانت ہے، جب کہ احتجاج اور شکایت کا طریقہ اپنانا،کامیابی کی اِس واحد خدائی ضمانت سے اپنے آپ کو محروم کرلینا ہے۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی حکیمانہ بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اگر دونوں فریقوں کو نصیحت کی جائے تو نصیحت غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ نصیحت کے لیے ہمیشہ یک طرفہ کلام موثر ہوتا ہے، تاکہ سامع کی ساری توجہ صرف قابلِ اصلاح پہلو پر پڑے، اس کی توجہ اصل مرکز سے ہٹنے نہ پائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom