الرسالہ مشن
ماہنامہ الرسالہ 1976میں دہلی سے جاری ہوا۔ اس وقت سے اب تک برابر پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ الرسالہ ریڈر پوری اردو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جنھوں نے الرسالہ کو پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھی۔ ایسے افراد بھی ہیں جو الرسالہ کا ترجمہ اپنی زبان میں کرواتے ہیں تاکہ وہ اس کا مطالعہ کرسکیں۔ الرسالہ کس قسم کا ذہن پیدا کرتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جنوری 2017 میں مہاراشٹر کے ایک الرسالہ ریڈر سے پوچھا گیا کہ تم کو الرسالہ سے کیا ملا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو الرسالہ سے ایک سوچ ملی۔ پھر اس نے اس سوچ کو تین جملوں میں بیان کیا— اللہ دیکھ رہا ہے، فرشتے لکھ رہے ہیں، میں مرنے والا ہوں۔(روایت : محبوب ہنوتگی، ممبئی)
میں سمجھتا ہوں کہ یہ الرسالہ مشن کا نہایت درست خلاصہ ہے۔ اگر آدمی کی سوچ یہ بن جائے کہ اللہ اس کو ہر لمحہ دیکھ رہا ہے، اسی طرح اس کو یقین ہوجائے کہ فرشتے اس کے قول و عمل کا مکمل ریکارڈ تیار کررہے ہیں، اور وہ اس شعور میں جیتا ہو کہ کسی بھی صبح و شام اس کی موت آسکتی ہے۔ جس آدمی کے اندر اس طرح کا ذہن پیدا ہوجائے، اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی بن جائے گی۔ وہ پورے معنی میں ایک ذمہ دارانہ زندگی جینے لگے گا۔ وہ چاہے گا کہ اپنا کام آج ہی پورا کرلے، کیوں کہ کل کا دن اس کو ملنے والا نہیں۔
انسان کو جو چیز انسان بناتی ہے، وہ کوئی نظام یا سسٹم نہیں ہے، بلکہ اس کا اپنا طریقِ فکر (way of thinking) ہے۔ آدمی جیسا سوچتا ہے، ویسی ہی اس کی شخصیت بنتی ہے۔ انسان کی شخصیت اس کی سوچ کے تابع ہے۔ انسان کی تعمیر کے سلسلے میں اصل بات یہی ہے کہ اس کے اندر صحیح سوچ (right thinking) پیدا کی جائے۔ یہی انسانی تعمیر کا نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔کارل مارکس نے اس ترتیب کو الٹ دیا تھا۔ یعنی اس کے مطابق یہ سسٹم ہے جو انسان کی شخصیت بناتا ہے، مگر پہلے ہی تجربے میں یہ نظریہ ناکا م ہوگیا۔