خدا کے حق کی قیمت پر
ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ اکثر خاندان کی تقریبات میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ الرسالہ مشن کے لیے کچھ نہیں کرپاتے۔ میں نے اُن سے پوچھا تو اُنھوں نے کہا کہ رشتے داروں کا بھی تو حق ہے۔ میں نے کہا کہ خدا کا حق، رشتے داروں کے حق سے بھی زیادہ ہے۔ آپ خدا کے حق کی قیمت پر رشتے داروں کا حق ادا کررہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک جرم ہے، نہ کہ کوئی اچھا کام۔
موجودہ زمانے میں ہر عورت اور مرد کا یہی حال ہے، خواہ وہ بے دین ہو، یا بظاہر دین دار۔ ہر ایک اِس طرح فیملی کلچر میں پھنسا رہتا ہے، جیسے کہ اس کا خاندان ہی اس کا معبود ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگی میں خدا کی حیثیت صرف ایک رسمی عقیدے کی ہوتی ہے۔ عملاً وہ اپنا وقت اور اپناپیسہ اور اپنے جذباتِ محبت کا مرکز اپنے خاندان کو بنائے رہتے ہیں۔ اور رسمی الفاظ کی حیثیت سے خدا کا نام بھی لے لیتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام میں رشتے داروں کے حقوق کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن اس کا تعلق حقیقی ضرورت سے ہے، نہ کہ خاندانی رسوم اور خاندانی رواج کو پورا کرنے سے۔ موجودہ زمانے میں ’’رشتے داروں کے حقوق‘‘ کے نام پر جو سرگرمیاں جاری ہیں، وہ بلا شبہ ایک سنگین گناہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نمائشی قسم کی سرگرمیوں میں لگے رہتے ہیں اور بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شرعی حقوق کو ادا کررہے ہیں۔ ایسے لوگ جو کچھ کرتے ہیں، اگر وہ اس کو خاندان کے نام پر کریں، تو وہ صرف ایک گناہ ہے۔ اور اگر وہ اُس کو شریعت کے نام پر کریں، تو یہ گناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے۔یہ بے حد سنگین صورتِ حال ہے۔ کیوں کہ گناہ، خدا کے یہاں قابلِ معافی ہے، لیکن سرکشی خدا کے یہاں قابلِ معافی نہیں۔ جو آدمی سرکشی کی زندگی اختیار کرے اور توبہ کیے بغیر مرجائے، تو وہ اِس طرح خدا کی سخت پکڑ میں آجائے گا کہ وہاں اُس کا کوئی رشتے دار اس کو بچانے کے لیے موجود نہ ہوگا۔