قرآن کی اشاعت
ہمارے ادارے کے ذریعے اللہ کے فضل سے قرآن کے ڈسٹری بیوشن کا کام برابر کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام میجر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے، اوردنیا کے مختلف حصوں میں برابراس کے ڈسٹری بیوشن کا کام کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے، جس کو ہم امت کا نمبر ایک کام سمجھتے ہیں۔ امت کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کی تمام زبانوں میں قابلِ فہم ترجمہ (understandable translation) تیار کرے، اور اس کو اچھی طباعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچائے۔ پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک بڑے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا: کیا میں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ لوگوں نے بلند آواز سے کہا کہ ہاں ہم گواہ ہیں کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا :اے اللہ تو گواہ رہ کہ میں نے لوگوں کو پہنچادیا (أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:اللہُمَّ اشْہَد)صحیح مسلم، حدیث نمبر 1679۔
امت مسلمہ کے تعلق سے دعوتی ذمےداری کا جو بیان قرآن میں آیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: مجھ پر یہ قرآن اترا ہے، تاکہ میں تم کو اس سےآگاہ کروں، اور وہ بھی (آگاہ کریں)جن کو یہ قرآن پہنچے (6:19)۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی طرح امت کی ذمے داری بھی لوگوں کو خدا کے پیغام سے آگاہ کرنا ہے، ان کی ذمے داری لوگوں کو کلمہ پڑھوانا نہیں ہے۔ پہنچانے کے بعد ذمے داری ان لوگوں کی ہوجاتی ہے، جن کو اللہ کا پیغام پہنچا ہے۔ البتہ امت کی مزید ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے اور مدعو کے درمیان سننے اور سنانے کی نارمل فضا کو برقرار رکھیں۔ اس معاملے میں امت کو شدت سے یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ اس کے اور دوسروں کے درمیان مدعو فرینڈلی ماحول برقرار رہے۔یعنی پہنچانے کے بعد امت کی ذمے داری نارمل حالات کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ اس کو لوگوں کے دلوں میں اتارنا۔ مدعو فرینڈلی بیہیویر (madu-friendly behaviour)کو قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ پیغام کو پہنچانا۔ دعوت کے کام کو مطلوب درجے میں کرنے کے لیے یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔