گھر— بہتر انسان بنانے کا کارخانہ
ماں کی حیثیت سے عورت کا رول اگلی نسل کی تیاری ہے۔ انسان کی نسل ایک رواں دریا کی مانند ہے جس میں ہر وقت پرانا پانی بہہ کر چلا جاتاہے اور نیا پانی اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی قافلے کا ہے۔ یہاں بھی مسلسل ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسل جاتی رہتی ہے اور نئی نسل اس کی جگہ لیتی رہتی ہے۔ ماں کا کام اِسی نئی نسل کی تیاری ہے۔ ماں کے ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر بار اگلی نسل کے لیے بہتر انسان بنا کر بھیجے۔
بہتر انسان کون ہے۔ بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر زندگی کا حوصلہ ہو، جو منفی سوچ سے بلند ہو اور مثبت سوچ کا حامل ہو، جو اپنے ذہن کے اعتبار سے اِس قابل ہو کہ وہ تعمیری بنیادوں پر زندگی کی منصوبہ بندی کرسکے، جو اپنے سماج کے لیے کوئی نیا پرابلم پیدا نہ کرے، جو اپنے سماج کا دینے والا ممبر (giver member) ہو، نہ کہ صرف لینے والا ممبر (taker member) ۔
اِس معاملے میں ماں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو ہم چند مثالوں کے ذریعے واضح کریں گے۔ ان مثالوں کاخلاصہ یہ ہے کہ ماں کو چاہیے کو وہ اپنی اولاد کے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو پختگی (maturity)کہاجاتا ہے، وہ ناپختگی (immaturity) کا ذہن دے کر اپنی اولاد کو سماج میں نہ بھیجے۔
مثلاً عام ذہن یہ ہے کہ جو آدمی دولت مند گھر میں پیدا ہو، اُس کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ اور جو آدمی غریب گھر میں پیدا ہو، اس کو بد قسمت انسان کہا جاتا ہے۔ یہاں ماں کا رول یہ ہے کہ اگر اس کا بچہ غریب گھر میں پیدا ہوا ہے تو وہ اس کو بتائے کہ غریب ہونا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ ایسی ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو زندگی کا یہ فلسفہ بتائے کہ دولت مند بچے کے پاس اگر دولت ہوتی ہے تو غریب بچے کے پاس ایک اور زیادہ بڑی دولت موجود ہے، اور وہ ہے — بڑھا ہوا محرک (incentive) ۔ یہ محرک اُس کی زندگی کی طاقت بن کر اس کا ساتھ دیتا ہے:
If a rich person is born with a silver spoon in his mouth, the poor person is born with an incentive spoon in his mouth.
ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو بتائے کہ ہر امیر بچے کے باپ اور دادا غریب ہی تھے، پھر وہ محنت کرکے امیر بنے۔ اِسی طرح تم بھی محنت کرکے سب کچھ حاصل کرسکتے ہو۔
اِسی طرح ایک اور فکری گمراہی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ اس گمراہی سے وہ اپنے بچے کو باہر نکالے۔ وہ یہ کہ عام طور پر انسانی طبقات کو محروم اور غیر محروم (haves and have nots) میں تقسیم کیا جاتا ہے، مگر یہ ایک غلط ڈائکاٹمی (wrong dichotomy) ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ایک شخص محروم طبقے کا فرد ہوتا ہے، لیکن بعد میں وہ ایک غیر محروم طبقے کا فرد بن جاتا ہے۔ مثلاً سی وی رمن، جی ڈی برلا، آبرائے، دھیرو بھائی امبانی، ڈاکٹر عبدالکلام، وغیرہ۔ اس قسم کے ہزاروں لوگ ہیں جو اپنے بچپن میں بظاہر محروم طبقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن بعد کو وہ غیرمحروم طبقے کے اعلیٰ فرد بن گئے۔ اِس لیے اِس دنیا میں صحیح ڈائکاٹمی محروم اور غیر محروم کی نہیں ہے، بلکہ امکانی غیرمحروم اور واقعی غیر محروم (pontential haves and actual haves) کی ہے۔
کسی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی چیز حوصلہ اور مثبت شعور ہے۔ ہر پچھلی نسل کا فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو با حوصلہ اور باشعور بنا کر زندگی کے میدان میں داخل کرے۔