ایک شادی یا کئی شادی
قرآن کی سورہ النساء میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ ایک آدمی چار خواتین سے نکاح کرسکتا ہے (4:3)۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ چار نکاح کرنے کی کھُلی اجازت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک استثنائی حکم ہے، نہ کہ عمومی حکم۔ عام حکم تو یہی ہے کہ ایک آدمی صرف ایک نکاح کرے، لیکن جب کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے، اُس وقت ایک آدمی ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہے، یعنی دو یا تین یا چار۔
یہ ضرورت اصلاً صرف ایک وجہ سے پیش آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی حادثے کی بنا پر معاشرے میں عورتوں کی تعداد زیادہ (surplus) ہوجائے اور مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کم ہوجائے۔ ایسی حالت میں ایک نکاح کے اصول کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سماج میں بہت سی عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں۔
کسی سماج میں عورتیں جب مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجائیں تو یہ ایک نازک موقع ہوتا ہے۔ اُس وقت انتخاب (choice) ایک نکاح اور کئی نکاح کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ انتخاب ایک نکاح اور صنفی انارکی کے درمیان ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں معاشرے کو صنفی انارکی (sexual anarchy)سے بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی اور صورت نہیں ہوتی کہ تعدّدِ اَزواج (polygamy)کے اصول کو اختیار کرلیاجائے اور ایک مرد کو کئی نکاح کی اجازت دے دی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ نکاح کا فطری طریقہ یہی ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد۔ عورت کے اندر فطری طورپر سوکن (socond wife)کے خلاف منفی جذبات ہوتے ہیں۔ یہی واقعہ اِس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ یک زوجیت (monogamy) کا طریقہ ہی فطری طریقہ ہے، اور تعددِ زوجیت کا طریقہ ایک استثنائی اجازت ہے، جو قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت روا رکھا گیاہے۔ اِس قسم کا استثنائی قانون زندگی کے ہر معاملے میں ہوتاہے، مگر استثنائی قانون صرف ایک استثنائی قانون ہے، اس کو عمومی قانون کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔