بے مقصد زندگی
ایک سفر میں میری ملاقات ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ان کا مکان کافی بڑا تھا۔ لیکن اس میں دو کے سوا کوئی اور فرد موجود نہ تھا۔ بظاہر سجے ہوئے مکان کے اندر دو بالکل سادہ انسان رہ رہے تھے۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے یہاں ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیداہوا۔ دونوں کو انھوں نے اچھی تعلیم دلائی، مگر تعلیم کی تکمیل کے بعد دونوں باہر چلے گئے۔ اب دونوں باہر کے ایک ملک میں رہ رہے ہیں اور غالباً وہاں کے شہری بن گئے ہیں۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو بچوں کی یاد آتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے بچے جہاں ہیں، وہاں وہ خوش ہیں۔
اِس طرح کے بہت سے جوڑے ہیں۔ انھوں نے بڑے شوق کے ساتھ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، لیکن جب بچے تعلیم یافتہ ہوگئے تو وہ باہر چلے گئے۔ اب یہ لوگ اپنے شان دار گھرو ںمیں بے شان زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس گزرے ہوئے دنوں کی یادوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کہانی اکثر ان لوگوں کے ساتھ پیش آرہی ہے جو پیسے کے اعتبار سے خوش حال سمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے پیسہ کما کر بظاہر اپنے لیے ایک کامیاب دنیا بنائی، لیکن جلد ہی ان کی امیدوں کی دنیا اُجڑ گئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا کوئی مستقل مقصد نہیں بنایا تھا۔ ان کا واحد مقصد بچوں کو خوش کرنا تھا۔ بعد کو جب بچوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو ان کے سامنے زندگی کا کوئی نشانہ باقی نہ رہا۔
مقصد وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہو، کسی کے رہنے یا نہ رہنے سے اس میں فرق نہ آتا ہو۔ ایک عورت اور ایک مرد نکاح کے رشتے میں بندھ کر اِس قابل بنتے ہیں کہ وہ خود اپنی ایک دنیا تعمیر کریں، مگر غیر حقیقی محبت کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم وتربیت والدین کی ذمے داری ہے، نہ کہ ان کی زندگی کا مقصد۔ والدین اگر اِس فرق کو سمجھ لیں تو وہ اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں گے اور پھر وہ کبھی افسردگی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں گے۔