غیر فطری تمنّا
مشہور ہندستانی سِنگر محمد رفیع (وفات1980) کا ایک گانا اتنامقبول ہوا کہ وہ ہر ماں باپ کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد رفیع نے جب اِس کو گایاتو وہ شدتِ تاثّر سے روپڑے۔ اِس گانے میں باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ اشعار کہتا ہے۔ اُس کا ایک حصہ یہ ہے:
بابُل کی دعائیں لیتی جا جا، تجھ کو ُ سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
یہ بات فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی لڑکے یا لڑکی کو اِس طرح ’’سکھ اور پیار‘‘ نہیں مل سکتا۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے سُکھ اور پیار کو زوجین کے لیے کامیاب زندگی کا معیار بتانا، زوجین کے ساتھ نا انصافی ہے۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں دونوں کے اندر غیرحقیقت پسندانہ ذہن بنتا ہے۔ اور غیر حقیقت پسندانہ ذہن کے ساتھ اِس دنیا میں کامیاب اِزدواجی زندگی گزارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
اِس غیر فطری معیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ والدین اور ان کی بیٹی دونوں ہمیشہ اِس احساس میں جیتے ہیں کہ ان کی لڑکی کی شادی غلط ہوگئی۔ دونوں اسی منفی احساس میں جیتے ہیں اور اِسی منفی احساس میں مرجاتے ہیں۔ اگرلوگ زندگی کی حقیقت کو جانیں تو والدین اپنی بیٹی کے بارے میں غیر فطری تمنا کرنے کے بجائے، اُس کو نئے دورِ حیات کے لیے تیار کریں اور خود لڑکی جب نیے حالات میں پہنچے تو وہ اس کو مثبت ذہن کے ساتھ لے۔ وہ نیے حالات کو اپنے لیے فطرت کا ایک چیلنج سمجھے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرکے نئے حالات میں اپنے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر کرلے۔
زندگی ایک چیلنج ہے، عورت کے لیے بھی اور مرد کے لیے بھی۔ جو لوگ اِس حقیقت کو جانیں، وہ چیلنج کو ترقی کا ایک زینہ سمجھیں گے اور اُس پر چڑھتے ہوئے اعلیٰ مراتبِ حیات تک پہنچ جائیں گے۔ سُکھ مادّی راحت کا نام نہیں۔سُکھ یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے مطابقت (adjustment)کا راز جان لے۔