رسول کا نمونہ
موجودہ زمانہ تحریکوں کا زمانہ ہے۔ چنانچہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر بڑی تعداد میں تحریکیں اٹھیں۔ ان مسلم تحریکوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ وہ یہ کہ ہر تحریک یہ کہتی ہے کہ الرَّسُولُ قُدوَتُنَا(رسول اللہ ہمارے لیے نمونۂ عمل ہیں)۔ الفاظ مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن ہر تحریک کا یہ ماننا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے قدوہ یا نمونہ( model) ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ تقریباً ہر ایک نےپیغمبر کا ماڈل مستقبل کے لحاظ سے بنا رکھا ہے۔ شاید کسی نے بھی حال کے اعتبار سے پیغمبر کو اپنا ماڈل نہیں بنایا ۔
مثلاً ہر تحریک کا نشانہ یہ ہے کہ وہ موجودہ سسٹم کو اسلامائز کرے، اور اِس کو اس نمونے کے مطابق بنائے جس کو وہ پیغمبر اسلام کا نمونہ سمجھتا ہے۔ ا س کا نتیجہ یہ ہے کہ ہرتحریک اپنے آغاز ہی سے ٹکراؤ کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ کیوں کہ وہ دیکھتی ہے کہ سسٹم پر کسی اور کا قبضہ ہے، اس لیے وہ پہلا کام یہ سمجھتی ہےکہ موجود سسٹم کو بدلیں، تاکہ دوسرے مطلوب سسٹم کو قائم کیا جاسکے۔
مگر پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے اس کے برعکس، یہ پالیسی اختیار کی کہ مسائل کو اوائڈ کرو، اور مواقع (opportunities)کو استعمال کرو۔ مثلاً آپ نے قدیم مکہ میں کعبہ کے اندر بتوں کی موجودگی کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی، بلکہ یہ کیا کہ ان بتوںکی وجہ سے کعبہ کے پاس زائرین کا جو مجمع (audience) اکٹھا ہوتا تھا، اس کو اپنی پر امن دعوت کےلیے بطور ِ موقع استعمال کیا۔
موجودہ زمانے کی مسلم تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے یہاں قدوہ اور اسوہ کی باتیں تو بہت ملیں گی، لیکن ان کی پالیسی میں عملا ًیہ ملے گا — مسائل سے ٹکرانا اورمواقع کو نظر انداز کرنا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کو قدوہ یا اسوہ کی خبر تو ہے، مگر انھیں حکمتِ رسول (prophetic wisdom) کی کوئی خبر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تحریکوں میں ٹکراؤ تو ملتا ہے، لیکن کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملتا۔