مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح

47

معاذ بن جبل كهتے هيں كه انھوں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے افضل ايمان كي بابت سوال كيا۔ آپ نے فرمايا: يه كه تم الله كے لیے محبت كرو اور تم الله كے لیےناپسند كرو۔ اور اپني زبان كو الله كے ذكر ميں مشغول ركھو، انهوں نے كها كه اور كيا ۔اے خدا كے رسول۔ آپ نے فرمايا كه تم دوسروں كے لیے وهي پسند كرو جو تم خود اپنے لیے پسند كرتے هو اور تم دوسروں كے لیے بھي اس چيز كو ناپسند كرو جس كو تم اپنے  لیےناپسند كرتے هو (مسنداحمد، حدیث نمبر 22130)۔

افضل ايمان سے مراد اعليٰ ايمان هے۔ يه اعلىٰ ايمان اس وقت پيدا هوتاهے جب كه آدمي كا ايمان صرف لفظي اقرار كے هم معني نه هو۔ بلكه وه شعوري دريافت اور داخلي انقلاب كي حيثيت ركھتا هو۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا آغاز کلمۂ ایمان کے اقرار سے شروع ہوتا ہے، مگر اللہ کے نزدیک اتنا ہی کافی نہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس لسانی سطح کے ایمان کو عقلی سطح کا ایمان بنائے۔ یہ گویا کلمہ گوئی کے بعد اس کی تکمیل ہے۔ اسی تکمیلی ایمان کو قرآن میں داخل القلب ایمان (49:14)کہا گیاہے۔ اس قسم كا ايمان جب كسي كو ملتا هے تو وہ اپنے محبت و نفرت کے جذبات کو اپنی خواہش کے تابع کرنے کے بجائے وہ اس کومکمل طور پر حق کے تابع کردیتا ہے۔ اس كےاندر وهي روحاني اور اخلاقي صفات پيدا هوجاتي هيں جن كا اس حديث ميں ذكر كياگيا هے۔

48

عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه ايك آدمي نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے كها كه اے خدا كے رسول الله كے نزديك سب سے بڑا گناه كيا هے۔ آپ نے فرمايا كه تم كسي كو الله كے برابر ٹھهراؤ حالاں كه الله نے تم كو پيدا كيا هے۔ اس نے كها كه اس كے بعد كيا۔ آپ نے فرمايا كه تم اپني اولاد كو اس انديشه سے قتل كرو كه وه تمهارے ساتھ كھائیں گے۔ اس نے كها اس كے بعد كيا۔ آپ نے فرمايا كه تم اپنے پڑوسي كي بيوي كے ساتھ زنا كرو۔ پھر الله نے اس كي تصديق میں قرآن کی یہ آیت (25:68)نازل فرمائي: اور جو لوگ اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ہیں۔ اور وہ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو قتل نہیں کرتے مگر حق پر۔ اور وہ بدکاری نہیں کرتے۔ اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو وہ سزا سے دو چار ہوگا (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر6861؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر86)۔

خدا كے معامله ميں كسي انسان كا سب سے بڑا جرم يه هے كه وه كسي كو عظمت كا وه درجه دے جو صرف ايك خدا كا حق هے۔ انسان كے معاملے ميں سب سے بڑا جرم يه هے كه كسي خود ساخته سبب كي بنا پر اس كو قتل كرديا جائے۔ عورت كے معاملے ميں سب سے بڑا جرم يه هے كه ايك آدمي اس كے ساتھ زنا كا فعل كرے۔ حالاں كه عورت كے ساتھ آخری حد تك احترام كا معامله كرنا فرض هے۔

49

عبد الله بن عمرو رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه بڑے گناه يه هيں: الله كے ساتھ كسي كو شريك ٹھهرانا، ماں باپ كي نافرماني، انسان كو قتل كرنا اور جھوٹي قسم (صحیح البخاري، حدیث نمبر6675)۔

گناه كي دو قسميں هيں۔ ايك غلطي، اور دوسرے سركشي۔ غلطي وه هے جو نفس سے مغلوب هو كر سرزد هو اور سركشي وه هے جو انانيت اور تکبركے جذبے كے تحت كي جائے۔ غلطي قابل معافي هوسكتي هے ليكن سركشي الله كے نزديك قابل معافي نهيں۔

50

انس بن مالك رضي الله عنه كي روايت ميں يه فرق هے كه اس ميں جھوٹي قسم (الْيَمِينُ الْغمُوس) كي جگه پر جھوٹي گواهي (شَهَادَةُ الزُّورِ) كے الفاظ آئے هيں (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر2654؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر88)۔

جھوٹی قسم اور جھوٹی گواہی دونوں اسپرٹ کے اعتبار سے ایک ہیں۔ یعنی خلافِ واقعہ بات کو سچ ثابت کرنا۔ جھوٹي گواهي دينا بلا شبه ايك عظيم گناه هے۔ جھوٹي گواهي دينے والا ايك آدمي كو جانتے بوجھتے اس كے جائز حق سے محروم كرنے كي كوشش كرتا هے۔ اس قسم كا فعل بلاشبه ايك ناقابل معافي جرم هے۔

51

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تم لوگ سات مهلك چيزوں سے بچو۔ لوگوں نے كها كه اے خدا كے رسول وه كيا هيں۔ آپ نے فرمايا: الله كے ساتھ شريك ٹھهرا نا اور جادو ا ور ايسي جان كو ناحق قتل كرنا جس كو الله نے حرام كيا هے۔ اور سود كھانا۔ اور يتيم كا مال كھانا۔اور ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر بھاگنا۔ اور پاك دامن ، سیدھی سادی مومن عورتوں پر جھوٹا الزام لگانا (متفق عليه:صحیح  البخاری، حدیث نمبر2766؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر89)۔

گناه كے مختلف درجے هيں۔ سب سے زياده بڑا گناه وه هے جو پستي اور كمينگي كي سطح پر كياجائے۔ مذكوره ساتوں گناه كي نوعيت يهي هے۔ ان كاموں كو كرنے والا اپنے آپ كو پست انسانيت كي سطح پر گرا ليتا هے۔ اس لیے ان كو مهلكات(برباد کرنے والے اعمال) كهاگيا هے۔

52

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جب كوئي زاني زنا كرتا هے تو اس وقت وه مومن نهيں هوتا۔ اور جب كوئي چور چوري كرتا هے تو اس وقت وه مومن نهيں هوتا۔ اور جب كوئي شراب پينے والا شراب پيتاهے تو اس وقت وه مومن نهيں هوتا۔ اور كوئي مال چھيننے والا اس وقت مومن نهيں هوتا جب كه وه مال چھين رها هو اور لوگ اس كو بے بسي كي نظروں سے ديكھ رهے هوں۔ اور جب كوئي خيانت كرنے والا خيانت كرتا هے تو اس وقت وه مومن نهيں هوتا۔ پس تم ان سے بچو، تم ان سے بچو (متفق عليه:صحیح  البخاری، حدیث نمبر2475؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر57)۔

ايك انگاره كو ديكھ كر يه كهنا كه يه آگ هے، اپنے آپ يه مفهوم ركھتاهے كه آدمي اس كو نهيں چھوئے گا۔ اسي طرح جب ايك آدمي ايمان لاكر خدا كي خدائي كا اقرار كرے تو اس كا لازمي مفهوم يه هے كه اقرار كرنےوالا ان تمام چيزوں كو چھوڑ دے گا جو خدا كي مرضي كے سراسر خلاف هيں۔ايسي حالت ميں جب ايك آدمي اس قسم كا كوئي كھلاهوا خلافِ ايمان فعل كرے تو اس نے عملاً اپنے آپ كو ايمان سے دور كرليا۔ وه دوباره صاحب ايمان اس وقت بن سكتا هے جب كه وه اپني غلطي كا سچا اعتراف كركے لوٹے اور از سرِ نو ايمان پر قائم هوجائے۔

53

عبد الله بن عباس رضي الله عنه كي روايت ميں اس طرح هے: جب كوئي قتل كرنے والا قتل كرتا هے تو وه مومن نهيں هوتا۔ عكرمه كهتے هيں كه ميں نے عبد الله بن عباس سے كها كه مومن سے ايمان كيسے نكل جاتا هے۔ انهوں نے كها كه اس طرح۔ اور پھر انھوں نے اپنے دونوں هاتھ كي انگليوں كو ايك دوسرے ميں داخل كيااور پھر ان كو نكال ليا۔ پھر كها كه اگر اس نے توبه كرلي تو ايمان اس طرح واپس آجاتا هے۔ پھر يه كهتےهوئے انھوں نے اپني انگليوں كو دوباره اس ميں داخل كرليا۔ ابوعبدالله البخاري كهتے هيں كه ايسا آدمي اس وقت مکمل مومن نهيں هوتا۔ اور نه اس كو ايمان كي روشني حاصل رهتي هے (صحیح البخاري، حدیث نمبر6809)۔

ايمان آدمي كے جسم کا مادی جزء نهيں هے، جس طرح هاتھ اور پاؤں انسانی جسم کے مادی اجزاء هيں۔ ايمان دراصل علم ومعرفت کی مانند ايك نفسیاتی حقیقت هے۔ آدمي خود اپنے ارادے سے ايمان كو اپنے اندر داخل كرتا هے۔ اور اپنے ارادے كے تحت اپنے آپ كو اس سے جزئي يا كلي طورپر دور كرسكتا هے۔

ايمان سے جدائي كي انتهائي صورت وه هے جس كو ارتداد (apostasy)كهاجاتا هے۔ ليكن جو شخص وقتي محرك كے تحت خلافِ ايمان فعل كرے اور پھر سچے دل كے ساتھ توبه كرلے، وه گويا وقتي طورپر اپنے ايمان سے جدا هوا تھا اور پھر دوباره اس كي طرف لوٹ آيا۔

54

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: منافق كي نشانياں تين هيں— اس پر مسلم كي روايت ميں اضافه هے : اگرچه وه روزه ركھے اور نماز پڑھے اور گمان كرے كه وه مومن هے— اس كے بعد دونوں روايت كے الفاظ يه هيں: يه كه وه بات كرے تو وه جھوٹ بولے۔ اور جب وه وعده كرے تووه اس كي خلاف ورزي كرے۔ اورجب اس كو امانت سونپي جائے تو وه خيانت كرے (متفق عليه:صحیح  البخاری، حدیث نمبر33؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر59)۔

جو آدمي زبان سے ايمان كا اقرار كرے مگر ايمان اس كے دل ودماغ كي گهرائيوں ميں اترا هوا نه هو تو يهي وه انسان هے جو منافقت كي روش اختيار كرتاهے۔ وه اپني زندگي كے معاملات كو اصول كي بنياد پر قائم كرنے كے بجائے دنيوي مصلحتوں كي بنياد پر چلانے لگتا هے۔

55

عبد الله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: چار چيزیں جن كے اندر هوں، وه خالص منافق هے۔ اور جس كے اندر ان ميں سےكوئي ايك خصلت هو تو اس كےاندر نفاق كي ايك صفت هوگي۔ يهاں تك كه وه اس كو چھوڑ دے: جب اس كو امانت دي جائے تو اس ميں وه خيانت كرے۔ اور جب وه بات كرے تووه جھوٹ بولے اور جب وه وعده كرےتو اس كي وه خلاف ورزي كرے اور جب وه جھگڑا كرے تو وه گالي دينے لگے(متفق عليه:صحیح  البخاری، حدیث نمبر 34؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر59)۔

منافق آدمي اگر چه بظاهر ايمان كا دعوی کرتا هے مگر وه ايمان كو اپني زندگي میں ایک اصول كي حيثيت سے اختيار نهيں كرتا۔ اس كي اس بےاصولي اور بے حسي كا نتيجه يه هوتا هے كه جب اس كو كوئي معامله پيش آتا هے تو وه فوراً ايسي روش ميں مبتلا هوجاتا هے جو ايمان سے مطابقت نهيں ركھتي۔ حساسيت برائي كے خلاف روك هے۔ جو آدمي ايمان کی حساسيت سے خالي هو وه اپنے دنیوی مفاد کی خاطر کھلے طور پر بےاصولی کا طریقہ اپنائے گا، مگر اس كو اپني غلطي كا احساس تك نه هوگا۔

56

عبدالله ابن عمر رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: منافق كي مثال اس بكري جيسي هے جو دو گلّوں (herds)كے درميان حيران پھر رهي هو، كبھي اِس طرف جاتي هو اور كبھي اُس طرف (صحیح مسلم، حدیث نمبر17)۔

منافق انسان اپنے مزاج كي بنا پر كسي مستقل اصول كا پابند نهيں هوتا۔ وه صرف وقتي مفاد كا پابند هوتا هے۔ يهي وجه هے كه اس كي وفاداري هميشه بدلتي رهتي هے۔ مادي مفاد كي بنياد پر وه كبھي ايك طرف ہو جاتاهے اور كبھي دوسري طرف۔

57

صفوان بن عسال رضي الله عنه كهتے هيں كه ايك يهودي نے اپنے ايك ساتھي سےكها كه آؤ هم اس نبي كے پاس چليں۔اس كے ساتھي نے اس سےكها: تم ان كو نبي مت كهو۔ اس لیے كه اگر انھوں نے تم سے يه سن ليا تو ان كي آنكھيں چار هوجائيں گي۔پھروه دونوں رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس آئے۔ پھر ان دونوں نے نو واضح نشانیوں کے بارے ميں آپ سے پوچھا۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تم الله كے ساتھ كسي چيز كو شريك نه كرو۔ اور تم چوري نه كرو اور تم زنا نه كرو۔ اور تم ناحق كسي جان كو قتل نه كرو جس كو خدا نے حرام ٹھهرايا هے،اور تم كسي بے گناه كو حاكم كے پاس نه لے جاؤ تاكه وه اس كوقتل كردے،اور تم جادو نہ كرو۔ اور تم سود نه كھاؤ۔اور تم پاك دامن عورت پر تهمت نه لگاؤ۔اور تم ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر نه بھاگو۔اور تم يهود پر يه خاص حكم هے كه تم لوگ سبت كے قانون كي خلاف ورزي نه كرو۔ راوي كهتے هيں كه پھر ان دونوں نے آپ كے دونوں هاتھ ا ور دونوں پاؤں چوم ليے۔ اور كها كه هم يه گواهي ديتے هيں كه آپ نبي هيں۔ آپ نے فرمايا كه پھر تم كو ميري اتباع سے كيا چيز روك رهي هے۔ ان دونوں نے كها كه داؤد عليه السلام نےاپنے رب سے كها كه ان كي اولاد ميں هميشه نبي آتے رهيں۔ اور هم ڈرتے هيں كه اگر هم نے آپ كي اتباع كي تو يهود هم كو قتل كرديں گے(سنن الترمذي،حدیث نمبر2733؛ سنن النسائی، حدیث نمبر 4078 )۔

يهودي عالم نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے توريت كے مخصوص احكام كي بابت دريافت كيا۔ دور پريس سے پهلے تورات كا علم صرف كچھ علما كو هوتا تھا۔ عام لوگ اس سے بے خبر رهتے تھے۔ يهودي عالم كو معلوم تھا كه رسول يا اصحاب رسول كو تورات كا علم نهيں۔ مگر جب آپ نے يهودي عالم كے سوال كا ٹھيك ٹھيك جواب دے ديا تو اس كو يقين هوگيا كه آپ خداكے پيغمبر هيں۔ اس كھلي دليل كے باجود وه دونوں يهودي ايمان نهيں لائے۔ اس كا سبب اپني قوم كا ڈر تھا۔ تاريخ كے هر دور ميں يهي هوا هے كه حق كي وضاحت كے باوجود مادي مصالح كي بنا پر لوگ حق كو قبول كرنے سے باز رهے۔

58

انس بن مالك رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: تين باتيں ايمان كي اصل هيں— اس شخص سے رُك جانا جو يه كهے كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں۔ تم كسي گناه كي بنا پر اس كو كافر نه كهو اور نه تم كسي عمل كي بنياد پر اس كو اسلام سے خارج كرو۔ اور جهادجاري رهے گا، ميري بعثت سے لے كر اس وقت تك جب كه اس امت كا آخري حصه دجال سے جنگ كرے گا۔ اس كو نه ظالم كا ظلم روكے گا اور نه عادل كا عدل۔ اور تقدير كے اوپر ايمان لانا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر2532)۔

الله كے يهاں هر آدمي كا فيصله اس كي نيت كے بنياد پر كيا جائے گا۔ مگر انسان كسي كي داخلي نيت كو نهيں جان سكتا۔ اس لیے انسان كو چاهیے كه وه لوگوں كے ظاهر كي بنياد پر ان كے ساتھ معامله كرے۔ وه ان كے باطن کی بنیاد پر كوئي حكم نه لگائے۔

 جہادسے مراد جہاد بالقرآن ہے، یعنی پرامن دعوتی عمل۔عادل حاکم کا زمانہ ہو تب بھی جہاد کا عمل جاری رہے گا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد مسلح جہاد نہیں ہوسکتا، کیوں کہ عادل حاکم کے خلاف مسلح جہاد ایک فساد کا عمل ہوگا، نہ کہ جہاد کا۔پرامن دعوتی عمل ایک ایسا کام ہے، جس کا تعلق ظالم حکمراں یا عادل حکمراں سے نہیں ہے۔یہ ہر دور میں بلا انقطاع جاری رہنے والا عمل ہے۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنيا جدوجهد كي دنيا هے۔ يهاں اسلامي مقاصد كے لیے فکری جهاد كا عمل هميشه جاري رهتا هے۔ يه عمل دورِ آخر ميں دجال كے ظهور تك جاري رهے گا۔ دجّال سے مراد غالباً كوئي فرد نهيں هے، بلكه ايك عظيم فتنه هے۔ دجال سے قتال کا مطلب غالباً مسلح جنگ نهيں هے بلكه فتنهٔ دجال كے خاتمہ کے لیے متواتر فكري جدوجهد هے۔

اسلام كي ايك بنيادي تعليم تقدير هے۔ تقدير كے عقيده كا مطلب انسان كي مجبوري كو بتانا نهيں هے، بلكه خدا كي قدرت كامله كو بتانا هے۔ خدانے اپني قدرت كامله كے تحت آزمائش كي مصلحت كي بنا پر انسان كو آزادي عطا فرمائي هے۔ آزادي كا يه ماحول قيامت تك باقي رهے گا۔

59

ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: جب بنده زنا كرتا هے تو اس وقت ايمان اس سے نكل جاتا هے ۔ وه اس كے سر كے اوپر سائبان كي طرح رهتاهے۔ پھر جب وه اس بُرے عمل سے باهر آتا هے تو اس كا ايمان اس كي طرف واپس آجاتا هے (سنن الترمذي ، حدیث نمبر 2625 ؛سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4690)۔

زنا ايك بداخلاقی کا عمل هے اور ايمان ايك پاکیزہ حقیقت۔ دونوں ايك دوسرے كے ساتھ جمع نهيں هوسكتے۔ يهي وجه هے كه زنا كے وقت زاني كا ايمان اس سے جدا هوجاتا هے۔ تاهم اگر اس كے زنا كي حيثيت ايك وقتي فعل كي هو اور اس كے بعد وه حقيقي معنوں ميں ندامت كا ثبوت دے تو اس كا ايمان الله كي رحمت سے دوباره اسے حاصل هوجائے گا۔

60

معاذ بن جبل رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے مجھے دس باتوں كي نصيحت فرمائي۔ آپ نے فرمايا كه الله كے ساتھ كسي چيز كو شريك نه ٹھهراؤ، اگر چه تم كو قتل كرديا جائے اور تم كو جلا ديا جائے۔ اور تم اپنے والدين كي نافرماني نه كرو، اگرچه وه تم كو حكم ديں كه تم اپنے اهل كو اور اپنے مال كو چھوڑ دو۔ اور تم هر گز جان بوجھ كر فرض نمازوں كو نه چھوڑو۔ كيوں كه جس نے جان بوجھ كر فرض نماز كو چھوڑا تو الله كا ذمه اس سے جاتا رهتا هے۔ اور تم هر گز شراب نه پيو كيوں كه وه هر برائي كي جڑ هے۔ اور تم الله كي نافرماني سے پوري طرح بچو۔ كيوں كه نافرماني سے الله كا غضب نازل هوتا هے۔ اور تم هرگز ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر نه بھاگو، اگرچه لوگ هلاك هوجائيں اور اگر لوگوں پر موت (وبا) آجائے اور تم ان ميں موجود هو تو تم اپني جگه ٹھهرے رهو۔ اور اپنے گھر والوں پر اپني استطاعت كے مطابق خرچ كرو اور تاديب كا عصا ان كے اوپر سے نه هٹاؤ۔ اور الله كے معامله ميں انھيں ڈراتے رهو (مسنداحمد، حدیث نمبر 22075)۔

اس حديث ميں وه ذمه دارياں بتائي گئي هيں جو ايك مومن پر انفرادي حيثيت سے عايد هوتي هيں۔ ان ميں سے بعض احكام كا تعلق روزانه كي زندگي سے هے، مثلاً شرك سے پرهيز اور نماز كا اهتمام۔ اور بعض احكام كا تعلق حالات كي نسبت سے هے۔ يعني وه اس وقت مطلوب هيں جب كه عملي طور پر ان كے مطابق صورتِ حال پيش آجائے۔ مثلاً مقابله کے ميدان سے كسي بھي حال ميں نه هٹنا۔

’’تاديب كا عصا نه هٹاؤ‘‘ كا مطلب مارنا پيٹنا نهيں هے،اس سےمراد اصلاً وه اخلاقي دباؤ هے جو گھر كے اندر نظم برقرار رکھنے كے لیے ضروري هوتاهے، تاکہ گھر میں انارکی کا ماحول قائم نہ ہو۔

61

حذيفه بن اليمان رضي الله عنه كهتے هيں كه نفاق رسول الله صلى الله عليه وسلم كے زمانے ميں تھا۔ اب آج يا تو كفر هے يا ايمان (صحیح البخاري، حدیث نمبر7114)۔

اس روايت ميں نفاق يا منافقت سے مراد وه كردار هے جو شبه كي نفسيات ميں مبتلا هو۔ اور اس بنا پر وه مخلصانه ايمان كے درجه تك نه پهنچ سكے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم كےزمانے ميں اسلام اپنے ابتدائي دو رميں تھا۔ نظريه وعمل كے اعتبار سے وه اس طرح مستحكم نهيں هوا تھا جس طرح وه آپ كے برپا كرده انقلاب كے بعد هوا۔ اس لیے ابتدائي دور ميں كمزور افراد كے لیے اس شبه كي گنجائش هوسكتي تھي كه يه واقعي صداقت هے يا نهيں۔ مگر بعد كےزمانے ميں جب اسلام نظري اور عملي دونوں اعتبار سے قائم اور مستحكم هوگيا تو اس كے بعد يه گنجائش نه رهي كه كوئي شخص اس كي صداقت كے بارےميں شبه كرسكے۔ اب انسان كے لیے شبه كا امكان ختم هوگيا۔ اب اس كے لیے صرف دو ميں سے ايك كا انتخاب باقي رها —  پوري طرح انكار يا پوري طرح اقرار۔

اس روايت ميں منافق كا قانونی حكم نهيں بتايا گيا هے۔ بلكه اس كي وه حيثيت بتائي گئي هے جو اس كي الله كے نزديك هے۔ اس روايت كامقصد صرف يه هے كه اسلام كے ابتدائي دور ميں كسي شخص كو شبه كا فائده (benefit of doubt)مل سكتاتھا۔ مگر جب اسلام هر اعتبار سے ايك واضح اور ثابت شده حقيقت بن گيا تو اب الله كے يهاں كسي كو شبه كي رعايت نهيں ملے گي۔ اب اگر كوئي شخص اسلام كي صداقت پر شبه كرے تو وه الله كے نزديك ايك ايسا انسان قرار پائے گاجس نے تمام دلائل وحقائق سامنے آنے كے باوجود خداکے دين كے ساتھ مخلصانه تعلق قائم نهيں كيا۔

62

ابو هريره رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: الله نے ميري امت سے ان وسوسوں كو معاف كرديا هے جو ان كے دلوں ميں گزريں۔ جب تك وه اس پر عمل نه كرے يا اس كو زبان پر نه لائے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر2528؛ صحیح مسلم،حدیث نمبر127)۔

اس حديث كا مطلب يه نهيں هے كه امت محمدي پر وسوسوں كي پكڑ نهيں هے، جب كه اس سے پهلے كي امتوں كا معامله ايسا نه تھا۔ حقيقت يه هے كه وسوسه پر پكڑ نه هونا بلكه عمل پر پكڑ هونا، يه الله كا عام قانون هے۔ اس كا تعلق هر دوركے تمام انسانوں سے هے۔ حديث كے مذكوره الفاظ كي نوعيت اسلوب كلام كي هے جو مخاطب كي نسبت سے اختيار كيا گياہے۔ اس ميں يه بات اپنے آپ مفهوم (understood) هے كه جس طرح پچھلي امتوں كے لیے وسوسه پر پكڑ نهيں تھي اسي طرح ميري امت كے لیے بھي وسوسه پر پكڑ نهيں۔

63

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه صحابه ميں سے كچھ لوگ رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس آئے۔ انھوں نے پوچھا كه هم اپنے دلوں ميں ايسي بات پاتے هيں جس كو زبان پر لانا هميں بهت زياده سنگين معلوم هوتا هے۔ آپ نے فرمايا كه كيا تم ايسا پاتے هو۔انھوں نے كها كه هاں۔ آپ نے فرمايا كه يه تو كھلا هوا ايمان هے (صحیح مسلم، حدیث نمبر132)۔

ايمان ، نفساني وسوسوں كے ساتھ ايك مسلسل جنگ هے۔مومن وه هے جو وسوسوں كو دبائے، نه كه خود اس سے دب جائے۔ نفساني وسوسوں كو اس حد تك برا سمجھناكه ان كو زبان پر لانا بھي آدمي كو گواره نه هو، يه خود ايمان كي ايك يقيني حالت هے۔

64

ابو هريره رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: شيطان تم ميں سے كسي شخص كے پاس آتا هے، اور(اس کےذہن میں) یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ  فلاں چيز كو كس نے پيداكيا، فلاں چيز كو كس نے پيدا كيا۔ يهاں تك كه وه كهتا هے كه تمهارے رب كو كس نے پيدا كيا۔ جب ايسا هو تو آدمي كو چاهیے كه وه الله سے پناه مانگےاور اس سے رك جائے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر3276؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر134)۔

يه بھي علم هے كه آدمي علم كي حد كو جانے۔ یعنی وه اس حقیقت کو جانے كه ميں كيا جان سكتاهوں، اور وه كيا چيز هے جس كو اپني محدوديت كي بنا پر ميں نهيں جان سكتا۔مثلاً آدمي يه جان سكتا هے كه درخت بيج سے نكلا اور پاني دو گيسوں كے ملنے سے بنا۔ مگر خود بيج اور گيس كي ابتداكيسے هوئي، اس كو جاننا انسان كے لیے ممكن نهيں۔ انسانی تاریخ اپنی تمام تر علمی دریافتوں کے باوجود جہاں تک پہنچی ہے یا پہنچ سکتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر صرف جزئی علم دے سکے۔ ماڈرن سائنس کے حوالے سےاِس واقعہ کو جے این سلیون (J. W. N. Sullivan) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے —  سائنس سے انسان کوحقیقت کا صرف جزئی علم حاصل ہوتا ہے:

Science gives us but a partial knowledge of reality. (Limitations of Science, London, 1983, p. 182)

يه ايك حقيقت هے كه علم كلي تك پهنچنے كي راه ميں انسان كي ذاتي محدوديت فيصله كن طور پر حائل هے۔ اپني اسي محدوديت كي بنا پر انسان خدا كے تخليقي مظاهر كو تو جان سكتا هے مگر خدا كے وجود كي وسعتوں كا احاطه كرنا انسان كے لیے هر گز ممكن نهيں۔

65

ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: لوگ ايك دوسرے سے سوال كرتے رهيں گے يهاں تك كه يه كها جائے گا كه يه مخلوق هے جس كو خدا نے پيدا كيا۔ پھر خدا كو كس نے پيدا كيا۔ پس جو شخص اپنے دل ميں اس قسم كا كوئي خيال پائے تو وه كهے كه ميں ايمان لايا الله پر اور اس كے رسولوں پر (متفق  عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر7296؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر134)۔

انساني غور وفكر كا ايك معلوم دائره هے اور دوسرا اس كا نامعلوم دائره۔ دانش مند وه هے جو اپنے معلوم دائرے ميں تو وہ كلي علم تك پهنچنے كي پوري كوشش كرے۔ مگر اس كا نامعلوم دائره آجائے تو وه جزئي علم پر راضي هوجائے۔ معلوم دائرے ميں براهِ راست علم تك پهنچنے كي كوشش كرنا ايك مستحسن فعل هے۔ مگر نامعلوم دائرے كے لیے يه مطلوب هے كه آدمي بالواسطه علم پر قناعت كرے۔ يهي اس دنيا ميں عملي نقطهٔ نظر هے، اور يهي وه نقطهٔ نظر هے جس كو موجوده زمانے ميں سائنٹفك نقطهٔ نظر كهاجاتا هے۔

66

عبد الله ابن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تم ميں سے هر شخص كے اوپر اس كا ايك ساتھي مقرر كرديا جاتا هے جنات ميں سے، اور فرشتوں ميں سے۔ لوگوں نے كها كه اے خدا كے رسول، كيا آپ كے ساتھ بھي۔ آپ نے فرمايا كه هاں ميرے ساتھ بھي۔ ليكن خدا نے مجھے اس كے اوپر مدد دي ۔ تو اس نے اسلام قبول كرليا، پس وه مجھ كو هميشه بھلائي كا مشوره ديتا هے (صحیح مسلم، حدیث نمبر69)۔

اس حقيقت كو قرآن ميں نفس اماره(12:53) اور نفس لوّامه (75:2)كے الفاظ ميں بيان كيا گيا هے۔ هر آدمي كے اندر بيك وقت دو مختلف قوتيں موجود هيں۔ ايك نفساني قوت، جو هر موقع پر آدمي كےاندر منفي نفسيات جگاتي هے اور اس كو برے كام پر ابھارتي هے۔ اسي كے ساتھ هر آدمي كے اندر ضمير كي طاقت هے جو هر موقع پر اس كے اندر مثبت احساسات جگاتي هے۔ آدمي اگر ايسا كرے كه جب اس كے اندر نفساني محركات جاگيں تو وه اپني سوچ كو بھي اسي کے مطابق چلانے لگے ايسي حالت ميں دھيرے دھيرے اس كا ذهن اس کےنفس كے تابع هوجائے گا۔ اس كے برعكس، اگر وه ضمير كي آواز پر دھيان دے اور اپنے ذهن كو اس كے تابع بنائے تو اس كا ضمير اس كا رهنما بن جائے گا جو هر موقع پر اس كو خير كا مشوره دے۔

67

انس بن مالك رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: شيطان آدمي كے اندر اس طرح دوڑتا هے جيسے خون اس كے اندر دوڑتا هے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر3281؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر23)۔

اس حديث ميں خون كي مثال سے بتايا گيا هے كه شيطان كسي آدمي كے اندر كس طرح تيزي كے ساتھ اپنا عمل كرتا هے۔ يه معامله خدا نے انسان كے امتحان كے لیے كيا هے۔ انسان كو شيطان كے ساتھ مسلسل فكري مقابله كرنا هے۔ اسي فكري مقابله كے دوران يه ثابت هوتاهے كه كون شخص اس دنياميں حق پر قائم رها اور كون حق كے راستے سے هٹ گيا۔

68

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: بنی آدم كے يهاں جب بھي كوئي بچه هوتا هے شيطان اس كو ضرور چھوتا هے۔ شيطان كےاسي چھونے كي وجه سے پيدائش كے وقت بچه چيختا هے، سوا مريم اوران كے فرزند كے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر3431؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر146)۔

اس حديث ميں ايك فطري حقيقت كو تمثيل كي زبان ميں بيان كيا گيا هے۔ اس كا مطلب يه هے كه انسان پيدا هوتے هي شيطان كي زدميں آجاتا هے اور پھر اپني ساري عمر وه اس كے زير اثر رهتا هے۔ اس معاملے ميں آدمي كو اتنا زياده چوكنا رهنا چاهیے كه پيدائش كے وقت اگر وه بچه كے چيخنے كي آواز سنے تو اس كو ياد آئے كه اس دنيا ميں انسان كو شيطان سے بچنے كے لیے كتنا زياده اهتمام كرنا هے۔

69

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: پيدائش كے وقت بچے كي چيخ شيطان كي چھيڑ سے هوتي هے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2367)۔

يه حديث تمثيل كي زبان (symbolic language)ميں هے۔اس حديث كا رُخ بچے سے زياده بڑوں كي طرف هے۔ اس كا مقصد يه هے كه پيدائش كے وقت جب آدمي بچے كي چيخ كو سنے تووه شيطان كے معامله كو ياد كرے اور شيطان سے بچاؤ كے لیے مزيد شدت كے ساتھ سرگرم هوجائے۔

70

جابر بن عبد الله رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ابليس اپنا تخت پاني كے اوپر ركھتا هے۔پھر وه اپنے دستوں كو بھيجتا هے تاكه وه لوگوں كو فتنوں ميں مبتلا كريں۔ پھر درجه كے اعتبار سے شيطان كا سب سے زياده مقرب وه هوتا هے جس نے سب سے زياده بڑا فتنه برپا كيا هو۔ ان ميں سے ايك واپس آتا هے اور شيطان سے كهتا هے كه ميں نے ايسا كيا، ميں نے ايسا كيا۔ تو شيطان كهتا هے كه تم نے كچھ نهيں كيا۔ آپ نے فرمايا كه پھر ان ميں سے ايك آتا هے اور كهتا هے كه ميں نے فلاں شخص كو نهيں چھوڑا جب تك كه ميں نے اس كے اور اس كي بيوي كے درميان جدائي ڈال دي۔ آپ نے فرمايا كه شیطان اس كو اپنے قريب كرتاهے۔ پھر وه اس سے كهتا هے كه هاں، تم ۔اعمش(راوی) كهتے هيں كه ميرا خيال هے كه روایت کرنے والے نے يه كها تھا كه "وه اس كو اپنے سے چمٹا ليتا هے" (صحیح مسلم، حدیث نمبر67)۔

يه حديث بھي غالباً تمثيل كي زبان ميں هے۔ يه ايك اسلوب كلام هے جس كے ذريعے آدمي كو شيطاني فتنوں سے متنبه كياگيا هے۔ جو شخص دو فرد يا دو گروه كے درميان تفريق ڈالے وه گويا شيطان كا كام كررها هے۔ اور جو لوگ تفريق ميں مبتلا هوں، انھيں جاننا چاہیے كه وه شيطان كي سب سے زياده تباه كن سازش كا شكار هوگئے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom