پیغمبر اسلام کا نمونہ
عطاء بن یسار تابعی (وفات 103 ھ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے صحابیٔ رسول عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ نے تورات کا مطالعہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات تورات میں آئی ہیں ان میں سے کچھ بتائیے۔ عبداللہ بن عمرو نے جو کچھ کہا، اس کا ایک جزءیہ ہے— خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات آئی ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں ۔ جیسے کہ اے نبی! بیشک ہم نے تم کو شاہد اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے (شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا)،اور اُمی (اَن پڑھ) قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو ۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بداخلاق ہو ، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور وغل مچانے والے (لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ)،وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا ۔ بلکہ معاف اور درگزر کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2125)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ کے مشن کو جاننے کے لیے یہ ایک اہم حدیث ہے۔ اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بنیادی صفات معلوم ہوتی ہیں۔ ایک، آپ داعی الی اللہ ہیں، دوسرے، آپ آخری حد تک نو پرابلم پرسن ہیں۔ اس حدیث میں بظاہر رسول کی صفات بیان کی گئی ہیں ،مگر وہ ہر انسان کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ہر انسان کو اعلیٰ انسان بننے کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
حنفی عالم احمد بن اسماعيل الكورانی (وفات 893 ھ) نےاس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں اشارہ ہے کہ آپ دین، انسانیت اور اخلاق کے اعتبار سے کامل تھے ( وإشارة إلى أنه كامل ديانة ومروءة، وأخلاقًا) الكوثر الجاری الى رياض احاديث البخاری، جلد 8، صفحہ 274۔
مذکورہ حدیث میں رسول اللہ کی سب سے پہلی صفت یہ ہے کہ" اے نبی ! بیشک ہم نے تم کو شاہد اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے" ۔ قرآن میں یہ حقیقت دو مقامات (33:54,48:8) پر بیان کی گئی ہے۔ مولانا وحید الدین خاں صاحب اس کے تحت لکھتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے شاہد کا ترجمہ اظہار حق کنندہ (حق کا اظہار کرنے والا) کیا ہے۔ یہی اس لفظ کا صحیح ترین مفہوم ہے۔ پیغمبر کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کا اعلان و اظہار کردے۔ وہ واضح طور پر بتا دے کہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں کن لوگوں کے لیے خدا کا انعام ہے۔ ایسے ایک شاہد ِحق کا کھڑا ہونا اس کے مخاطبین کے لیے سب سے زیادہ سخت امتحان ہوتا ہے۔ ان کو ایک بشر کی آواز میں خدا کی آواز کو سننا پڑتا ہے۔ ایک عام انسان کو خدا کے نمائندہ کے روپ میں دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک انسان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے ہوئے یہ سمجھنا پڑتا ہے کہ وہ اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس اعلیٰ معرفت کا ثبوت دیں ان کے لیے خدا کے یہاں بہت بڑا اجر ہے (ماخوذ،تذکیرالقرآن، 48:8)۔
"اُمی قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے" ۔حفاظت کا مطلب سیاسی حفاظت نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہی حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (62:2)۔ یعنی، وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول انھیں میں سے اٹھایا، وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے۔ اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ دوسرے الفاظ میں، تزکیہ ، تعلیم اور حکمت کے راستہ سے افرادِ عرب کی تربیت کرنا۔
"میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے" کی شرح ابن حجر نے ان الفاظ میں کی ہے— أَيْ عَلَى اللّهِ لِقَنَاعَتِهِ بِالْيَسِيرِ وَالصَّبْرِ عَلَى مَا كَانَ يَكْرَهُ (یعنی اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہیں، کیوں کہ وہ تھوڑی چیز پر قناعت کرتے ہیں، اور ناپسندیدہ چیز کے مقابلے میں صبر کرتے ہیں) فتح الباری، جلد8، صفحہ 586 ۔
"تم نہ بداخلاق ہو ، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور وغل مچانے والے" ۔اس کے تحت ایک شارح حدیث لکھتے ہیں کہ وہ نرم رو، شریف النفس ہیں، وہ بداخلاق نہیں کہ لوگوں پر چلّائیں، نہ غیر مہذب ہیں کہ بازار میں شور مچائیں، بلکہ لوگوں کے لیے نرم اور خیرخواہ ہیں (هو لين الجانب شريف النفس لا يرفع الصوت على الناس لسوء خلقه، ولا يكثر الصياح عليهم في السوق لدناءته، بل يلين جانبه لهم ويرفق بهم) شرح الطيبی، جلد 11، صفحہ 3639۔
"وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا" —اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ ایک دوسری حدیث میںاس طرح بیان کی گئی ہے: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ، وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ، إِنَّ الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيثَ (مسند احمد، حدیث نمبر 3672)۔ یعنی ' بیشک اللہ تعالی برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہے، لیکن برائی کو اچھائی سے مٹاتا ہے، بیشک برائی برائی کو ختم نہیں کرتی ہے' ۔اسی لیے قرآن میں کئی مقام پر برائی کو بھلائی سےختم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثلاً دیکھیے یہ آیتیں— 13:22, 23:96, 28:54, 41:34۔
اس حدیث سے جو سبق ملتا ہے، وہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کے الفاظ میں یہ ہے— یہ تمام حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کے ردّعمل کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ اعلیٰ ربانی اصول کی پیداوار تھی۔ آپ کا اعلی اخلاقی صفات کا حامل ہونا ،آپ کے اس دعوی کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ کسی بھی سماج کے لیے اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ افراد کے اندر اچھے اخلاق کا ہونا کسی سماج کو اچھا سماج بناتا ہے۔ اور افراد کے اندر برے اخلاق کا ہونا کسی سماج کو برا سماج بنا دیتا ہے۔
معروف اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (وفات101 ھ) نے ایک مرتبہ لوگوں کو یہ نصیحت کی تھی: أَيُّهَا النَّاسُ أَصْلِحُوا سَرَائِرَكُمْ تَصْلُحْ عَلَانِيَتُكُمْ(الطبقات الکبری لابن سعد، جلد7، صفحہ386)۔ یعنی، لوگو، اپنے اندرون کو درست کرو، تمھارا ظاہر درست ہوجائے گا۔ اخلاق دراصل، داخلی احساس کا خارجی اظہار ہے۔ داخلی سطح پر ایک انسان جیسا ہوگا، اُس کا اثر اس کے خارجی برتاؤ سے ظاہر ہوگا۔اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویے سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کا جواب برائی سے دے اور بھلائی کا جواب بھلائی سے، بلکہ اس کا طریقہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کا ہو۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے جسے آپ کاامتی ہونے کی حیثیت سے ہر مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے۔( مولانا فرہاد احمد)