ڈائری 1986
17فروری 1986
اجودھیا میں32ہزار ہندوآبادی ہے اور مسلمان تقریباً ساڑھے سات ہزار ہیں۔یہ مندروں کا شہر ہے۔چنانچہ یہاں4932 مندر پائے جاتے ہیں۔یہاں ایک قدیم مسجد ہے جو مسلمانوں کے درمیان بابری مسجد کے نام سے مشہور ہے۔تاہم ہندوؤں کا کہنا ہے کہ یہ ’’رام جنم بھومی ‘‘ ہے۔
یہ عمارت انگریزی دور سے متنازعہ رہی ہے۔1949ء میں ایک فساد ہوا اور اس کے بعد بابری مسجد بند کر دی گئی۔اس کے بعد مقدمہ چلتا رہا اور اب بھی اس کا کیس عدالت میں موجود ہے۔ تاہم تالابندی کے 37 سال بعد جنوری 1986ءمیںڈسٹرکٹ جج کے ایم پانڈے کے ایک فیصلے کے تحت اس کا تالاتوڑ دیا گیا اور یہ عمارت ہندوؤں کے حوالے کر دی گئی۔(مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے 9 نومبر 2019ء کو انڈین سپریم کورٹ نے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیا، اس طرح اب یہ مسئلہ عملاً ختم ہو چکا ہے)۔
ہندوؤں کی طرف سے مقدمہ مسٹر امیش چند پانڈے نے لڑا جو ایک غیر معروف وکیل تھے۔ مگر اس کامیابی نے انھیں اچانک غیر معمولی شہرت دے دی۔ ہندوستان ٹائمس (16فروری1986ء) نے اس موضوع پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے۔تبصرہ نگار مذکورہ وکیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
......and virtually overnight this quite obscure advocate made headlines and became the darling of Ayodhya's hindu majority.
بابری مسجد کی اہمیت یہ تھی کہ وہ دو حریف قوموں کے لیے پرسٹیج اشو بن گئی۔اس قسم کی چیزوں میں جو لوگ حصہ لیتے ہیں وہ خواہ کامیاب ہوں یا ناکام ،ہر حال میں اچانک شہرت حاصل کر لیتے ہیں۔ان چیزوں میں حصہ لینے کا محرک شخصی ترقی ہوتی ہے، نہ کہ قومی ترقی۔
18فروری 1986
کلیم اللہ خاں ایم ایس سی(سری نگر) اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ملنے کے لیے آئے۔انہوں نے بتایا کہ جمعہ(14فروری1986) کی نماز انہوں نے چاندنی چوک کی سنہری مسجد میں پڑھی۔یہ بابری مسجد کے سلسلے میں احتجاج کا دن تھا۔مسجد میں ایک صاحب تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے نہایت پرجوش انداز میں کہا کہ ہماری مسجدوں پر قبضہ کیا جا رہاہے۔اس وقت مسلمانوں کوسر بکف ہو کر نکل پڑناچاہیے،مگر مجھے تعجب ہے کہ مسلمان بے حس بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مسجد کے نمازیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ ’’یوم احتجاج‘‘ کی رعایت سے آج آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنے ہاتھوں پر کالی پٹی باندھ لیں۔اتنے سارے مسلمان یہاں جمع ہیں مگر کوئی کالی پٹی باندھے ہوئے نظر نہیں آتا۔آپ لوگوں کی غیرت آخر کہاں چلی گئی۔
کلیم اللہ صاحب نے کہا کہ موصوف کی پرجوش تقریر کے بعد میں نے یہ جاننا چاہا کہ مقرر صاحب نے خود کالی پٹی باندھی ہے یا نہیں۔میں نے بہت غور سے دیکھا،مگر ان کے ہاتھ پر یا جسم پر کہیں کالی پٹی نظر نہیں آئی۔
کلیم اللہ صاحب نے اپنے پاس بیٹھے ایک صاحب سے کہا کہ مقرر صاحب کے ہاتھ پر کالی پٹی تلاش کر رہا ہوں مگرکہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔اس آدمی نے جواب دیا کہ وہ کالی پٹی کیا باندھیں گے وہ ہندوؤں کے خلاف تقریر کر رہے ہیں کہ انہوں نے بابری مسجد پر قبضہ کر لیا ہے اور خود یہ حال ہے کہ اسی سنہری مسجد کے ایک حصہ پر وہ قبضہ کیے ہوئے ہیں اور کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
موجودہ زمانہ میں اکثر مسلم لیڈروں کا یہی حال ہے۔وہ جھوٹی تقریریں کرنے میں مشغول ہیں۔وہ دوسروں سے ایسا مطالبہ کررہے ہیں جس پر وہ خود عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طرف لیڈری کی دھوم مچی ہوئی ہے مگر کہیں بھی کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا۔
19فروری 1986
الرسالہ کے ایک قاری نے کہا کہ الرسالہ میں اسلامی مرکز کاجو خبرنامہ ہوتاہے وہ میرے نزدیک اسلامی مرکز کا تعریف نامہ ہے۔یہ اپنی تعریف آپ(self-praise)کے ہم معنیٰ ہے۔ میں نے کہا کہ خبرنامہ میں جو باتیں درج ہوتی ہیں ان کو آپ حقیقی واقعہ سمجھتے ہیں یا فرضی خبر؟ انہوں نے کہا کہ میں ان کوحقیقی واقعہ سمجھتا ہوں۔میں نے کہا کہ جب یہ باتیں حقیقی واقعہ ہیں تو پھر ان کے ذکر کرنے پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟
پھر میں نے کہا کہ آپ کی تنقید کی وجہ وہ نہیں ہے جو آپ اپنے لفظوں میں ظاہر کر رہے ہیں۔ آپ اس کو ایک اصولی تنقید سمجھ رہے ہیں۔مگر یہ صرف ایک غیر ذمہ دارانہ اظہار رائے ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کو ’’اسلامی مرکز‘‘ کے ساتھ مشن والی وابستگی نہیں۔آپ الرسالہ کے قاری ہیں، مگرآپ الرسالہ کی تحریک کے ہمدرد نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ اس طرح کی باتیں فرما رہے ہیں۔اگر آپ کو اس مشن سے فی الواقع قلبی لگاؤ ہوتا تو آپ خبرنامہ کو ’’رفتار کار‘‘( الرسالہ مشن کی سرگرمیوں) کے معنیٰ میں لیتے ،اور پھر جب آپ اس کو پڑھتے تو آپ کو یہ معلوم کرکے خوشی ہوتی کہ اس مشن کا دائرہ پھیل رہا ہے۔اور وہ لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔مگر چونکہ آپ کو اس سے کوئی تحریکی دلچسپی نہیں، اس لیے آپ اس کو رفتار کار کے انداز میں نہ دیکھ سکے۔آپ نے اس کو صرف تعریف کے انداز میں دیکھا۔یہی وجہ ہے کہ جو چیز محض حقیقتِ واقعہ کا اظہار تھی وہ آپ کو غیر ضروری طور پر قابل اعتراض دکھائی دینے لگی۔یہی حال تمام معاملات کا ہے۔اکثر غلط فہمیاں یا اعتراض محض زاویۂ نظر کے فرق کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اگر زاویۂ نظر بدل جائے تو آدمی کی رائے بھی یقینی طور پر دوسری ہو جائے گی۔
20فروری 1986
آج کی ڈاک سے ایک کتاب موصول ہوئی۔اس کا نام ہے:
’’التربیۃ فی الیابان المعاصرۃ‘‘(مترجم: محمد عبد العليم موسى،1985، صفحات 68)
یہ ایڈورڈ ،ر، بوشامب کی ایک کتاب کا عربی ترجمہ ہے جس کا اصل نام یہ ہے:
Education in Contemporary Japan
اس کتاب کاعربی ترجمہ ریاض(سعودی عرب) کے ایک ادارہ نے شائع کیا ہے۔
کتاب میںبتایا گیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے موقع پر جاپانیوں میں زبردست فوجی ذہن پایا جاتا تھا۔وہ اپنے قومی مسائل کا حل فوجی کارروائیوں میں سمجھتے تھے۔مگر جب امریکہ نے جاپان کے اوپر دو ایٹم بم گرائے اور جاپان کی طاقت بالکل تہس نہس ہو گئی تو اچانک جاپانیوں نے اپنی سوچ کو بدل لیا۔پوری قوم اس بدلے ہوئے رخ پر چل پڑی جس کو اس کے مفکرین نے الاتجاہ المعاکس (reverse course) کا نام دیا ہے۔یعنی متشددانہ طریقہ کو چھوڑ کر پر امن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔
یہی موجودہ دنیا میں ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔فرد ہو یا قوم ہر ایک کی زندگی میںباربار ایسے لمحات آتے ہیں کہ اس کا سابقہ طریقہ بدلے ہوئے حالات کے اعتبار سے بے فائدہ ہو جاتا ہے۔یہ لمحہ کسی شخص یا قوم کے لیے سب سے زیادہ نازک امتحان ہوتا ہے۔مردہ لوگ اپنے سابقہ طریقے پر باقی رہتے ہیں،یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔اور جو زندہ لوگ ہیںوہ فوراً اپنا راستہ تبدیل کر دیتے ہیں۔وہ نئے راستے سے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں وہ پچھلے راستے سے پہنچنے میںکامیاب نہیں ہوئے۔
21فروری 1986
پچھلے جمعہ(14فروری1986) کو ایک مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ایک صاحب نے جمعہ سے پہلےنہایت پرجوش تقریر کی اورجمعہ میں قنوت نازلہ بھی پڑھی گئی ۔مقررنے گرجدار آواز میں کہا تھا کہ بابری مسجد(اجودھیا) کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ہم کسی حال میں بھی اس کو برداشت نہیں کر سکتے۔خواہ ہماری گردنیں کاٹی جائیںیا ہمارے جسموں پر ٹینک چلا دیے جائیں،وغیرہ وغیرہ۔
مگر پچھلے جمعہ کو بھی اس پرجوش تقریر کے بعد اور کچھ نہ ہو سکا۔مقرر نے اعلان کیا تھا کہ تمام نمازی نماز کے بعد مسجد کے باہر میدان میں جمع ہو جائیں اور جلوس کی شکل میں بوٹ کلب چلیں۔نماز کے بعد مقرر صاحب کو قریب کے تھانہ میں بلایا گیا اور تھانے دار نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ بوٹ کلب کے علاقہ میں دفعہ144 لگی ہوئی ہے۔پھر آپ کیسے وہاں جلوس لے جائیں گے؟آپ صرف یہ کر سکتے ہیں کہ چند آدمی اپنا مطالبہ لکھ کر لے جائیں اور وہاں پولس افسر کو دے دیں۔اس کے بعد مقرر صاحب کی ہدایت پرتمام نمازی منتشر ہو گئے اور مطالبہ اس لیے پیش نہ کیا جا سکا کہ وہ سارے جوش وخروش کے باوجود تحریری طور پر مرتب ہی نہیں کیا گیا تھا۔
آج کے جمعہ میں بھی نمازیوں کی تعداد معمول سے زیادہ تھی۔تاہم نہ مجاہد نوجوانوں کے ہاتھ پر کالی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور نہ کوئی پرجوش تقریر ہوئی۔سابق مقرر نے دوبارہ اعلان کیا کہ آپ لوگ نماز سے فارغ ہونے کے بعد خاموشی سے اپنے اپنے گھروں کوچلے جائیں اور بس اللہ سے دعا کرتے رہیں۔آج پچھلے جمعہ کے برعکس قنوت نازلہ بھی نہیں پڑھی گئی۔
یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی عام حالت ہے۔وہ پرجوش تقریریں کرتے ہیں،جب کہ عمل کا کوئی واقعی منصوبہ ان کے ذہن میں نہیں ہوتا۔وہ بڑے بڑے اقدام کی باتیں کرتے ہیں،جب کہ وہ اپنے مدعا کو ایسے انداز میں قلم بند کیے ہوئے نہیں ہوتے جس کو وہ کسی ذمہ دار کے سامنے پیش کر سکیں۔ اسی قسم کی روش کی طرف صحابی رسول ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: سَيَأْتِي مِنْ بَعْدِكُمْ زَمَانٌ قَلِيلٌ فُقَهَاؤُهُ كَثِيرٌ خُطَبَاؤُهُ (الادب المفردللبخاری، حدیث نمبر 789)۔ یعنی، عنقریب تمھارے بعد وہ زمانہ آئے گا، جب کہ سمجھ بوجھ رکھنے والے کم ہوں گے اور تقریر کرنے والے زیادہ۔
22فروری 1986
ایک سخت تجربہ گزرا۔اس کے بعد میری زبان پر یہ الفاظ تھے— اس دنیا میں کبھی اپنے جائز حق سے دست بردار ہونا پڑتا ہے تاکہ اپنا حق زیادہ طاقت کے ساتھ ثابت کیا جا سکے۔اس دنیا میں کبھی برائی کے آگے جھکنا پڑتا ہے تاکہ برائی کو ختم کرنے کے لیے راہ کھولی جا سکے۔
یہ دنیا صبر کا امتحان ہے۔اس دنیا میں آدمی کو مستقبل کی خاطر ماضی اور حال کو بھولنا پڑتا ہے۔یہاں آدمی کو چھوڑنا پڑتا ہے تاکہ وہ دوبارہ پانے والا بن سکے۔یہاں رکنا پڑتا ہے تاکہ ازسرنو آگے بڑھنے کا راستہ کھلے۔یہاں چپ ہونا پڑتا ہے تاکہ آدمی کو بولنے کے لیے الفاظ مل سکیں۔یہ دنیا کھو کر پانے کی جگہ ہے۔یہاں اعراض کرکے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔یہاں دینا پڑتا ہے تاکہ دوبارہ اضافہ کے ساتھ وصول کیا جا سکے۔
23فروری 1986
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمس(23فروری 1986) میں’’بھگوان رجنیش‘‘ پر ایک نوٹ چھپا ہے، جس کا عنوان ہے:
A Quiet Departure
رجنیش امریکا سے بھاگ کر ہندوستان آئے۔پھر وہ کاٹھ مانڈو (نیپال)گئے۔اس کے بعد وہ چپکے سے اٹلی کے لیے روانہ ہو گئے۔اخبار نویس نے ان کے شاگردوں سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہمیںاس کی بہت زیادہ فکرنہیں، کیوں کہ’’بھگوان‘‘ ہم کو self realization کا سبق دیتے ہیں۔
We are not followers. The bhagwan has only been helping in to be ourself. In their words, to free us from following anything.
اچاریہ رجنیش کے ایک شاگرد نے کہا— حتیٰ کہ جب بھگوان مر جائیں گےتب بھی ہمیں کسی گرو کی ضرورت نہیں۔کیوں کہ ہم نے ان کو ٹیپ اور ویڈیو ٹیپ پر ریکارڈ کر لیا ہے:
Even when bhagwan is gone, we won't need any priests, for we have him on tapes and the video tapes.
اچاریہ رجنیش کے خیالات سے قطع نظر ان کے شاگرد کا یہ جواب زمانہ کے فرق کو بتاتا ہے۔ قدیم زمانہ کی شخصیتوں میں پیغمبر اسلام کی شخصیت کے سوا ،کسی بھی شخص کا کامل ریکارڈ محفوظ نہیں۔مگر موجودہ زمانہ میں یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کسی آدمی کی آواز اور اس کی شخصیت اس طرح محفوظ کر لی جائے کہ کسی بھی وقت اس کو دہرایا جا سکے۔
25فروری 1986
دوسری جنگ عظیم تک جاپان کے اندر زبردست عسکری مزاج تھا۔مگر دوسری جنگ عظیم (اگست 1945ء) میں جب جاپان کو شکست ہوئی تو وہاں کے مفکرین نے فوراً جاپان کو دوسرا نعرہ دیا، جس کا نام تھا برعکس طریقہ(reverse course)۔یہ برعکس طریقہ اتنا زبردست کامیاب ہوا کہ چالیس برس کے بعد جاپان کی تاریخ بدل گئی۔
میں نے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے سفر میں یہ ایک بے حد فیصلہ کن چیز ہے۔زندگی کے سفر میں کبھی اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے رخ کو بالکل تبدیل کر دیا جائے۔جنگ کرنے والا صلح کر لے۔آگے بڑھنے والا پیچھے ہٹ جائے۔جو اب تک بول رہا تھا وہ خاموشی اختیار کرلے۔مذکورہ مسلمان نے یہ سن کر کہا کہ جاپان نے جو کچھ کیا اس کی مجبوری تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپان اس کے سوا اور کیا کر سکتاتھا جو وہ کرتا۔
مذکورہ مسلمان کے یہ الفاظ گرامر کے لحاظ سے صحیح ہیں۔مگر معنیٰ کے اعتبار سے وہ سراسر غلط ہیں۔موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو ہرمحاذ پر شکست ہوتی ہے۔اس کے باوجود وہ ریورس کورس کی تدبیر نہ اختیار کر سکے۔مسلمان جہاں براہ راست نہیں لڑ سکتے وہاں بالواسطہ لڑ رہے ہیں اور جہاں کسی قسم کی لڑائی ان کے لیے ممکن نہیں ہے ،وہاں لفظی طوفان مچا رہے ہیں۔یہ طریقہ جاپان بھی اختیار کر سکتا تھا،مگر اس نے نہیں کیا۔
26فروری 1986
ڈاکٹر عبدالاحدصاحب(بنگلور) ملنے کے لیے تشریف لائے۔ وہ الرسالہ کے قاری بھی ہیں اور دس پرچہ منگا کرتقسیم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ الرسالہ کے بعض قارئین کا کہنا ہے کہ الرسالہ میںتنقید نہیں رہنا چاہیے۔
میں نے کہا کہ تنقید تو کسی قوم کی زندگی کی علامت ہے۔صحابہ کرام عام طور پر ایک دوسرے کے خلاف سخت تنقید کرتے تھے۔مثلاً حضرت ابن عمر نے ایک بار حضرت ابو ہریرہ کے بارے میں کہا:كَذَبَ أَبُو هُرَيْرَةَ( قبول الاخبار لابی القاسم بلخي، جلد 1، صفحہ 183)۔ یعنی، ابوہریرہ نے جھوٹ کہا۔ اس جملے کو اگر خالص لفظی معنیٰ میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ابو ہریرہ ساقط الروایۃ ہیں۔کیوں کہ جو شخص جھوٹ بولے اس سے روایت نہیں کی جاتی۔مگر یہ صرف شدت کلام ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کے خلاف تنقید کرنے میں کتنے شدید الفاظ استعمال کرتے تھے۔
حدیث میں آیا ہے:اخْتِلافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ(المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر39)۔اس حدیث میں لوگ اختلاف کو انتشار کے معنیٰ میں لے لیتے ہیں۔اس لیے انھیں اس کی تاویل میں سخت مشکل پیش آتی ہے۔حتیٰ کہ کچھ لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سند کے اعتبار سے یہ روایت لینے کے قابل نہیں ہے۔مگر اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔کیوں کہ اس حدیث میں اختلاف کا لفظ انتشار کے معنیٰ میں نہیں ہے۔بلکہ اختلافِ رائے(dissent) کے معنی میں ہے۔اس کا مطلب ہے، ایک رائے کی جگہ دوسری رائے کو دلیل کے ذریعے پیش کرنا ہے، نہ کہ مختلف گروہوں میں بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اختلاف رائے کی فضا کا ہونا کسی قوم کے لیے رحمت ہے۔جس قوم میں اختلاف رائے ہوگا اس کے اندر جمود نہیں ہوگا۔اگر ان کے اندرکوئی غلطی واقع ہوگی تو وہ بذریعہ تنقید اپنی اصلاح کرتی رہے گی۔ کسی غلط روش کا برقرار رہنا اس کے اندر ناممکن ہو جائے گا۔اس کے اندر یہ ذہن ہوگا کہ چیزوں کو ان کے جوہر (merit)کی بنیاد پر اہمیت دی جائے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔موجودہ دور میں سائنس کی ترقی اسی اختلاف کی بنیاد پر ہوئی ہے۔سائنس دانوں کے درمیان اختلاف رائے اگر ممنوع ہوتا تو کبھی سائنس ترقی نہ کرتی۔
27فروری 1986
ڈاک سے رسالہ معارف(فروری1986) ملا۔ اس میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کا ایک خط چھپا ہے۔اس خط میں وہ لکھتے ہیں:
’’گوٹن برگ(فوت1468ھ) کوفن طباعت کاموجد مانا جاتا ہے۔حال میں مجھے پتہ چلا کہ ویانا(آسٹریا) کے کتب خانۂ عام میں ایک ٹکڑا قرآن مجید کا موجود ہے جو گوٹن برگ سے پانچ سو سال قبل سلجوقی دور میں(غالباً مصرمیں) چھپا ہے۔اور یہ تاریخ فرنگی محققوں نے بیان کی ہے۔آسٹریا کو فوراً خط لکھ کر اس کا فوٹو منگایا۔واقعی قابل دید اور قابل ذکر چیز ہے۔ میں اسے اپنے فرانسیسی مقالہ’’تاریخ خط عربی‘‘ میں چھاپ رہا ہوں‘‘(5جنوری1986)۔
اس طرح کی کتنی چیزیں ہوںگی جو مسلم عہد میں پیدا ہوئیں مگر آج ان کا کہیں نشان نہیںملتا۔
مسلمانوں کو جب عروج حاصل ہوا تو انہوں نے کہیں بھی قوموں کے نشانات کو نہیں مٹایا۔حتیٰ کہ انہوں نے یونان کے طریق علاج کو لیا تو اس کا نام’’یونانی علاج‘‘ رکھا، اس کو اسلامی علاج نہیں کہا۔مگر بعد کے زمانہ میں جب دوسری قوموں کو غلبہ حاصل ہوا تو انہوں نے بے دردی کے ساتھ اسلامی آثار کو مٹایا۔
اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جو لوگ فی الواقع حق کے حامل ہوں ان کے اندر فیاضی کا مزاج ہوتا ہے اور جو لوگ ناحق پر ہوں وہ نسبتاً غیر فیاض ہو جاتے ہیں۔حق پرست کو اس کی ضرورت محسوس نہیں رہتی کہ وہ دوسروں کو مٹا کر عظمت حاصل کرے۔جبکہ غیر حق پرستوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ دوسروں کو منظر سے ہٹائے بغیر انھیں عظمت حاصل نہیں ہو سکتی۔
28فروری 1986
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب (لاہور) فروری 1980 ءمیں دہلی آئے اور ہمارے یہاں ٹھہرے۔ میں نے گفتگو کے دوران کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں اقبال کا اندازہ بہت غلط تھا۔ان کا شعر ہے:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اگر اقبال کا یہ اندازہ صحیح ہوتا تو اب تک اس ’’مٹی‘‘ کو زرخیز ہو جانا چاہیے تھا۔کیوں کہ اقبال اور دوسرے بہت سے اکابر پچھلے سو برس سے اس کو صرف نم ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس پر فیض کی موسلادھار بارش بھی برسا رہے ہیں،اس کے باوجود آج تک وہ زرخیز ثابت نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر اسرار احمد اقبال کے بہت معتقد ہیں۔انہوں نے اقبال کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اقبال نے یہ بھی تو کہا ہے:
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عقیدت مندی حقیقت سے کس قدر بے خبر رہتی ہے، اس کی یہ ایک دلچسپ مثال ہے۔اگر اقبال کے پہلے شعر کو لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اقبال اپنی قوم کا صحیح اندازہ نہ کر سکے۔اور اگر ان کے دونوں شعر بیک وقت لیے جائیں تو ان کی شخصیت اور زیادہ مجروح ہوتی ہے۔کیوں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال تضاد بیانی کے شکار تھے۔کبھی کچھ کہتے تھے اور کبھی کچھ۔جو کلام اقبال کی تضاد فکری کو ثابت کر رہا تھا وہ عقیدت مند کے نزدیک ان کے مشکل ہونے کا ثبوت بن گیا۔
مگر عقیدت کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔وہ جب مسلم قوم کو زرخیز ثابت کرنا چاہے گا تو وہ اقبال کا پہلا شعر پڑھ دے گا۔ اور جب مسلم قوم کو بے گوہر بتانے کی ضرورت ہوگی تو وہ دوسرا شعر پڑھ دے گا۔حکیم اور مفکر کی تعریف علم کی دنیا میںکچھ اور ہے اور عقیدت مندی کی دنیا میں کچھ اور۔
1مارچ،1986
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے اسلام کا کافی مطالعہ کیا ہے۔میں نے کہا کہ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ اسلام کا خلاصہ کیا ہے تو آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ submission۔میں نے کہا کہ آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔اب اس کی تفصیل بتایئے۔ انہوں نے کہا کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر شعبہ میںsubmission،یہی کامل اسلام ہے۔
میں نے کہا کہ آپ نے شروع میںصحیح جواب دیا،مگر اس کے بعد آپ منحرف ہو گئے۔یہ صحیح ہے کہ اسلام کی اصل submissionہے،مگر اس سے مراد آپ کا اپناsubmission ہے، نہ کہ سیاست اور نظام کا submission۔اسلام کا اصل مخاطب فرد ہے۔فرد کوsubmissive بنانا اصل کام ہے۔مگر آپ کی تشریح نے اسلام کو دین کے بجائے سیاست بنا دیا۔
2مارچ،1986
آج جناب انور علی بیگ(لکھنؤ) ملنے کے لیے آئے۔وہ انجینئر ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ اسلامیات میں آپ نے کیا کیا چیزیں پڑھی ہیں؟۔انہوں نے بتایا کہ وہ مولانا مودودی کا بیشتر لٹریچر پڑھ چکے ہیں۔’’تفہیم القرآن‘‘ کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ مولانا مودودی کی فکر سے متاثر ہیں۔اقبال کی بھی وہ کافی تعریف کر رہے تھے۔اقبال کو انہوں نے اپنا مینٹر(mentor) بتایا۔
گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ آپ کے صبر کی پالیسی سے کچھ نہیں ہو سکتا۔اسلام کے احیاء کے لیے ہمیشہ’’کربلا‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔میں نے کہا کہ کربلا کا رزلٹ(نتیجہ) بتایئے کہ کیا تھا؟اس کے جواب میں وہ لمبی چوڑی تقریر کرتے رہے جو اصل سوال سے غیر متعلق تھی۔میں نے انھیں یاد دلایا کہ میں نے آپ سے کربلا کا رزلٹ دریافت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کربلا کا رزلٹ ہے:پرنسپل (اصول) پر سمجھوتہ نہ کرنا۔میں نے کہا کہ تاریخ سے یہ رزلٹ ثابت نہیں ہوتا۔یہ تو محض شاعری ہے کہ ’’سر داد مگر نداددست در دست یزید‘‘ ۔ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ امام حسین نے آخری لمحہ میں بیعت کی پیشکش کر دی تھی۔چنانچہ تاریخ میں اس قسم کے الفاظ امام حسین کی طرف منسوب کیے گئے — وَإِمَّا أَنْ أَضَعَ يَدِي فِي يَدِ يَزِيدَ( انساب الاشراف للبلَاذُري، جلد 3، صفحہ182)۔ یعنی، میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں رکھ دوں۔
اس کے جواب میں وہ تاریخ کے غیر معتبر ہونے پر تقریر کرنے لگے۔میں نے کہا کہ کربلا کے نہ آپ عینی شاہد ہیں اور نہ اقبال۔ایسی حالت میں ہم کو تاریخ ہی پر تو بھروسہ کرناپڑے گا۔میرا تجربہ یہ ہے کہ بیشتر لوگوں کی بات میںconsistency نہیں ہوتی۔وہ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ۔جب کہ علمی گفتگو اس کا نام ہے کہ آدمی اصل پوائنٹ پر قائم رہ کر بولے،وہ اس سے اِدھر اُدھر نہ ہٹے۔
3مارچ،1986
جناب محمد مخدوم صاحب(کشن گنج، دہلی) ملنے کے لیے آئے۔انھوں نےتبلیغی جماعت میں چلہ دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مولانا محمد الیاس صاحب کہا کرتے تھے:
نیچی نظر،دل میں فکر،زبان پر ذکراور قدم ملا کر چلو گے تو منزلیں آسان ہو جائیںگی۔
یہ بہت مومنانہ بات ہے۔ایمان اللہ کی عظمتوں کے احساس کا نام ہے۔جو شخص اللہ کی عظمتوں کے احساس سے بوجھل ہو رہا ہو، اس کی نگاہ جھک جائے گی۔اس کا دل سوچ میں ڈوب جائے گا۔اس کی زبان اللہ کو پکارے گی اور اللہ کو یاد کرنے لگے گی۔
جن لوگوں کے اندر یہ گہرے اوصاف پیدا ہو جائیں وہ اس کے بعد لازمی طور پر متحد ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں سے انانیت اور سرکشی کاجذبہ چھن جاتا ہے۔اور جو لوگ انانیت اور سرکشی سےخالی ہو جائیں ان کے باہمی اتحاد میںکوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔جو لوگ اس قسم کے ایمان ویقین سے سرشار ہوں اور پھر وہ باہم مل کر متحد ہو جائیں ، ان کےلیے ہر منزل آسان ہے۔کوئی طاقت ان کو زیر نہیں کرسکتی،کوئی مشکل ان کو کامیابی تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔
4مارچ،1986
افضال احمد ایم اے(اٹاوہ) ملاقات کے لیے تشریف لائے۔وہ اٹاوہ میں بزنس کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ وہ مقامی بک سیلر کے یہا ں سے الرسالہ خرید کر پڑھتے ہیں اور 1978 سے پڑھ رہے ہیں۔انہوں نے الرسالہ کی کافی تعریف کی۔
میں نے کہا کہ الرسالہ صرف ایک ماہانہ میگزین نہیں، وہ ایک مشن ہے۔اور مشن کا حق صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ آپ اس کی تعریف کر دیں۔مشن چاہتا ہے کہ آپ خود کواس میں شامل (involve) کریں۔یہی وجہ ہے کہ جب تک کوئی شخص ایجنسی نہ لے ہمارے نزدیک اس کی تعریف قابل لحاظ نہیں۔وہ فوراً ایجنسی لینے کے لیے راضی ہو گئے۔
ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے الرسالہ کی تعریف کی اور میں نے ان سے مذکورہ بات کہی،مگر وہ ایجنسی لینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
انسانوںمیںطرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔کسی مشن کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اس کو جاندار افراد مل جائیں۔جاندار افراد وہ ہیں جو بات کو فوراً سمجھ لیں اور جو کچھ سمجھیں ان پر بلا تاخیر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔