اذنِ خداوندی کے بغیر

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (42:21)۔ یعنی کیا ان کے کچھ شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔

شرک یہ ہے کہ کسی غیرِ خدا کو وہ درجہ دیا جائے، جو صرف اللہ رب العالمین کا حق ہے۔ مثلاً کسی سے بے انتہا محبت کرنا، کسی اور کو اپنا سول کنسرن بنانا، کسی اور سے وہ امید رکھنا جو امید صرف اللہ سے رکھنا چاہیے، وغیرہ۔ اللہ رب العالمین ہر انسان کا خالق اور رازق ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑائی کا درجہ صرف اللہ رب العالمین کو دے، نہ کہ کسی اور کو۔

 مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی) کا تعلق صرف معروف شرک سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسان کے تمام قول اور عمل سے ہے۔ خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، انسان کو وہی بولنا ہے، جس کی اجازت خدا نے دی ہے۔ انسان کو وہی کرنا ہے، جس کا اِذن (اجازت) اس کو اللہ رب العالمین کی طرف سے حاصل ہو۔

 مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی) کا تعلق ہر انسانی معاملے سے ہے۔ مثلاً جھوٹ بولنا مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ میں شامل ہے، خواہ وہ براہ راست جھوٹ ہو یا بالواسطہ جھوٹ۔ اسی طرح انسان سے بدخواہی کرنا بھی  مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ میں شامل ہے۔ انسانی سماج میں منفی جذبات کے ساتھ جینا بھی مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُُ میں شامل ہے۔یعنی خدا کی زمین پر ایسا کام کرنا، جس کی اجازت اللہ نے نہ دی ہو :

That is not sanctioned by Allah

یہ کسی مرد یا عورت کے لیے ناقابل معافی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی سے ایسا کوئی عمل سرزد ہوتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ وہ کھلے طو رپر اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اور اللہ رب العالمین سے کھلے دل کے ساتھ معافی مانگے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom