دعوت کے حدود
قرآن میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو نصیحت کرو ، کیوں کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ہو۔ تم لوگوں کے اوپر داروغہ نہیں ہو (88:21-22)۔ اسی طرح دوسرے مقام پر کہا گیا ہے کہ تم لوگوں کے اوپر زبردستی کرنے والے نہیں ہو، پس تم قرآن کے ذریعہ اس شخص کو نصیحت کرو جو میرے پیغام کو سننے کے لیے راضی ہو (50:45)۔ حضرت ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو کسی کام پر بھیجتے تو فرماتے:بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1732)۔یعنی، خوش خبری دو اور متنفر نہ کرو، آسانی پیدا کرو اور لوگوں کو مشکل میں نہ ڈالو ۔
اس طرح کی آیتیں اور حدیثیں گویا دعوت کے عمل کی حد بندی کر رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی کو ابلاغ کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے ، اس کو اجبار(زور زبردستی) کے دائرے میں داخل نہیں ہونا ہے۔ اس کے لیے یہ مناسب طریقہ ہے کہ وہ سمجھانے بجھانے کے تمام ذرائع کو استعمال کرے۔ مگر اس کو یہ حق نہیں کہ وہ دین کے نام پر دھرنا یا احتجاج ،وغیرہ کاراستہ اختیار کر کےعام لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب بنے(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2629)۔ مثال کے طور پر شتم رسول کو لیجیے۔شتم رسول کا واقعہ پیش آنےپر مسلمانوں کا مروجہ احتجاجی ردعمل اسلامی تعلیمات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ یہاں ایک داعی کو یہ کرنا ہے کہ وہ دلائل کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی سیرت اور ان کے پیغام کو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ ’’شتم رسول‘‘کا واقعہ آپ کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے پیغمبر کی تعلیمات کو پرامن انداز میں پیش کریں۔
لیکن اگر کچھ لوگ ’’اینٹی شتم رسول مہم‘‘ چلائیں ۔ وہ شتم رسول کے خلاف سڑکوں پردھرنا دیں ، مفروضہ شاتم کا پتلا (effigy)بناکر اس کو جلائیں اور دکانوں کو بند کرائیں ، وغیرہ تو اس قسم کی مہم درست نہ ہوگی۔ یہ گویا ابلاغ کی حد کو پار کر کے اجبار کی حد میں داخل ہونا ہے۔ ایسا طریقہ عام انسانوں کو اللہ اور اس کے دین سے دورکرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس قسم کی ’’ اینٹی‘‘ مہم چلانا گویا دعوتی مواقع کو قتل کرنا ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تخریب کاری ہے، نہ کہ دین کی خدمت۔