ایک سوال
ایک مرتبہ اپنے والد محترم سے میری گفتگو ہوئی، جو کہ جامعہ دارالسلام عمر آباد میں معہد ثانویہ کے مدیر ہیں ۔ میری ان سے گفتگو ہوئی تو میں نے کہا کہ مولانا وحیدالدین خان صاحب أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ(اللہ سے شدید محبت)کی اہمیت بتاتے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟میں نے کہاکہ خدا کی نعمتوں کے تذکرے سے اور ملی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے ۔ دوسری بات میں نے یہ بتائی کہ عام طور پر امت کے بہت سے علما اور عوام اپنے اکابر کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں،وہ ان کے خلاف ذرا بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ اس کے بر خلاف مولانا کا یہ حال ہے کہ مولانا خدا کے معاملے میں ہمیشہ حساس رہتے ہیں۔والد محترم نے کہا کہ یہی تو اصل چیز ہے کہ آدمی خدا کے بارے زیادہ حساس ہو جائے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک انسان خدا کے بارے میں حساس کیسے بن سکتا ہے (حافظ سید اقبال احمد عمری،عمرآباد، تامل ناڈو)۔
اللہ رب العالمین سے گہرے تعلق کا راز صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ بندہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو دریافت کرے، جو ہر آن اس کو پہنچ رہی ہے۔ مثلاً پانی کی سپلائی، ہوا کی موجودگی، آکسیجن کا نظام، سورج کی روشنی ، زمین میں اشیائے خوراک کا پیدا ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی ان گنت نعمتیں ہیں، جو ہر وقت انسان کو پہنچ رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان کا وجود قائم ہے۔ اس قسم کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کے بارے میں درست طور پر قرآن میں آیا ہے "إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا (14:34)۔ یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم گن نہیں سکتے"۔آدمی اگر ان حیات بخش نعمتوںکو صبح و شام یاد کرتا رہے تو ان نعمتوں کی یاد سے وہ ہر وقت سرشار رہے گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ محبت، نعمت کے جواب (response) کے طور پر کسی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان اللہ کو اپنے سب سے بڑے محسن اور منعم کی حیثیت سے دریافت کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سینے میں اللہ کے لیے محبت کا سمندر موجزن ہوجاتا ہے۔اِسی کا نام حبِّ شدید ہے۔ محبت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دریافت (discovery) کا نتیجہ ہے، وہ محض ایک حکم کی رسمی تعمیل نہیں۔