جنت کی قیمت
انسان سے جو اعلیٰ عمل مطلوب ہے، وہ اصلاً صرف ایک ہے، اور وہ ہے ٹوٹل فریڈم کے ساتھ ٹوٹل سرینڈر۔ یہ ایک بہت نادر شرط تھی۔ اللہ رب العالمین جو عالِم کُل ہے، اس کو معلوم تھا کہ انسان کے لیے اس پر قائم ہونا، بہت ہی مشکل کام ہوگا۔ اس کمی کی تلافی کے لیے انسان کو ایک نادر رعایت دے دی گئی، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:(ترجمہ) کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے (39:53)۔
اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل اسلام کی گاڑی بہت کم رائٹ ٹریک (right track)پر قائم رہی۔ مسلم تاریخ میں انفرادی طور پر لوگ رائٹ ٹریک پر قائم ملتےہیں، لیکن عمومی سطح پر ایسے لوگ نہیں ملتےہیں جو اس شرط پر پورے اتریں ۔یعنی اسلام کی تاریخ میں صرف کچھ افراد رائٹ ٹریک پر پوری طرح قائم رہ سکے۔ جماعت کے اعتبار سے اس کی مثال شاید دورِ اول کے بعد نہیں ملتی۔ کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام کی گاڑی بہت کم رائٹ ٹریک پر قائم رہی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ منصوبۂ تخلیق کے مطابق، انسان کو ٹوٹل فریڈم دیا گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس سے یہ مطلوب ہے کہ خدا کے آگے وہ ٹوٹل سرینڈر کا طریقہ اختیار کرے۔
عام طور پر انسان رائٹ ٹریک پر کمپلشن کی صورت حال میں قائم رہتا ہے، یعنی جبر کا موقع ہو تو انسان رائٹ ٹریک پر رہتا ہے،لیکن آزادانہ ماحول ملتے ہی وہ رائٹ ٹریک سے ڈی ریل (derail) ہوجاتا ہے(الاعراف، 7:171)۔صرف وہی لوگ سیلف ڈسپلن کی زندگی گزارتے ہیں، جو کامل معنوں میں بااصول انسان ہوں۔ سیلف ڈسپلن، یعنی اختیارانہ طور پر سچائی کے آگے سرینڈر کرنا۔
جنت کو اہل تقویٰ، انتہائی اعلیٰ کردار کے لوگوں کا مسکن بتایا گیا ہے (النساء، 4:69)۔یعنی وہ لوگ جو اللہ رب العالمین کی قربت چاہتے ہیں(التحریم، 66:11)۔ اہل جنت کے ان اوصاف کو ایک لفظ میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجے میں قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کے حامل ہوں گے، یعنی کامل معنوں میں بااصول انسان۔