دعوت کا کام کیسے کریں؟
(مسٹر شاہ خالد سی پی ایس مشن کے ایک نوجوان ممبرہیں۔ انھوں نے روزمرہ کے دعوتی تجربات کی روشنی میں عام لوگوں کے لیے ایک مفید مضمون لکھا ہے۔یہ گویا اس مہینہ کا خبرنامہ ہے۔ امید ہے کہ اللہ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ دعوت ِدین کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔)
سی پی ایس مشن سے وابستہ افراد کے سامنے ہمیشہ دو چیزیں رہتی ہیں۔ پہلے کا تعلق تزکیۂ نفس سے ہے ۔ یعنی کیسے وہ اپنے وجود کی فکری یا روحانی تطہیر کریں؟ کیسے وہ خود کوڈسٹریکشن سے بچائیں اور کیسے اپنےلیے ازدیادِ ایمان کا سامان کرسکیں؟ ایک ربانی انسان اس معاملے میں انتہائی حساس ہوتا ہے اور یہ اس کا ہمہ وقتی وظیفہ بن جاتا ہے کہ وہ بار بار اپنا محاسبہ کرے، بار بار رجوع الی اللہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنے عجزِ کامل کا اعتراف کرے۔
اس کے مقابلے میں دوسری چیز کا تعلق دعوتِ دین سے ہے۔ کوئی انسان جب سچائی کو دریافت کرلیتا ہے تو یہ اس کے لیے کسی ذاتی تجربے کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے اور وہ بے تابانہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ جو چیز اس نے پائی ہے دوسرے لوگ بھی اس کو پا سکیں۔ جس درجہ میں انسان معرفت خداوندی پاتا ہے اسی درجے میں اس کے اوپر یہ ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے کہ وہ سچائی سے دوسرے لوگوں کو آگاہ کرے۔ یہ داعی کا اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ محبت کا عملی ظہور ہوتا ہے۔ یعنی جو سچائی اس کی زندگی میں ربانی انقلاب کا سبب بنی ہے، اس کو وہ دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
لیکن اب ایک عام آدمی کی حیثیت سے سوال یہ پیدا ہوتا ُہے کہ ہم دعوت کا کام کیسے کریں؟ کیوں کہ جہاں تک خواص کا تعلق ہے وہ تو اپنے دینی علم کی روشنی میں مختلف طریقوں سے یہ کا م کرتے رہتے ہیں۔ ایک عام مسلمان— خواہ وہ طالب علم ہو یا ملازمت پیشہ یا تجارت پيشه ،وغیرہ— اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ کیسے دعوت کا کام کرے؟
میرے خیال میں عام مسلمانوں کے لیے دعوتی کام کے درج ذیل طریقے ہوسکتے ہیں۔وہ ان طریقوں کو اپنا کر اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو متاثر کیے بغیر دعوت کا کام انجام دے سکتے ہیں۔
1۔ واٹس ایپ گروپ بنانا: آج کل واٹس ایپ ہر کسی کے موبائل فون میں ہوتا ہے۔ آدمی اپنے سرکل میں (اہل و عیال، فیملی ممبرز، کالج یونیورسٹی فیلوز، کلیگزاور دیگر ملنے جلنے والے، وغیرہ) جن کو وہ seeker سمجھتا ہو، جو لکھنے پڑھنے سے دلچسپی رکھتے ہوں یا کم از کم اسے یہ اندازہ ہو کہ اس شخص کو گروپ میں ایڈ کرنے پر وہ اعتراض نہیں کرے گا؟ ایسے لوگوں کو لے کر واٹس ایپ گروپس بنانے چاہئیں۔ ان میں روزانہ دو تین پوسٹ جو مرکز کی طرف سے آتی ہیں، وہ شیئر کردی جائیں۔ اسی طرح کوئی شارٹ پوسٹ یا ویڈیو کلپ شام میں بھی ۔ مناسب ہے کہ مرد وخواتین کے لیے الگ الگ گروپ بنائے جائیں۔
2۔ واٹس ایپ اسٹیٹس اور فیس بک پوسٹ: واٹس ایپ پر روزانہ سٹیٹس لگائيںاور فیس بک پر روزانہ کم از کم دو پوسٹ ضرور كريں۔ بعض اوقات ایک چھوٹی سی بات بھی کسی کی زندگی کا رخ موڑنے کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
3۔ واٹس ایپ براڈ کاسٹ:یہ واٹس ایپ کا وہ فیچر ہے جس سے آپ بیک وقت سینکڑوں لوگوں کو انفرادی حیثیت سے میسج بھیج سکتے ہیں۔گروپ کی بنسبت براڈ کاسٹنگ کے ذریعے بھیجے جانے والے میسج کو زیادہ اہمیت ملتی ہے۔ کیوں کہ وہ آپ کے نام سے جاتی ہے اور لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ چیز فلاں شخص نے شیئرکی ہے تو ضرور پڑھنے والی ہوگی۔ کوشش کیجیے کہ تحریر مختصر اورمعیاری ہو۔ میں کبھی عام تحریر اس میں شیئر نہیں کرتا،صرف معیاری تحریر ہی شیئر کرتا ہوں۔
4۔ گھر کا ماحول: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کیجیے (26:214)۔اس لیے گھر کے افراد کو اپنے دعوتی پیغام سے مانوس کرنا انتہائی ضروری ہے۔ گھر والوں کو اپنے عمل سے یہ اچھی طرح باور کرائیں کہ ہمارا گھرانہ دعوتی گھرانہ ہے اور اس وجہ سے ہم دوسروں سے مختلف ہیں۔ ہم عام لوگوں کی طرح بے مقصدیت، اور ظاہری نمود و نمائش میں زندگی نہیں گزاریں گے۔ اس سےممکن ہے کہ گھر کے ماحول میں تبدیلی آئے ۔ پھر آپ اکیلے نہیں ہوں گے بلکہ آپ کے بیوی بچے بھی آپ کے ہم خیال ہوں گے۔
5۔ رشتہ داروں کی لسٹ مرتب کرنا:رشتہ داروں اور جاننے والوں کی باقاعدہ لسٹ مرتب کرنی چاہیے جس میں ان کی تعلیمی استعداد اور دلچسپیوں کو مد نظر رکھ کر انھیں اپنے ماہانہ بجٹ سے کتابیں ہدیہ دی جانی چاہئیں۔ اس طرح کتابوں کا تبادلہ بھی شروع ہوگا۔ تعلقات میں بھی بہتری آئے گی، آپ کے خاندان کا شعوری معیار بلند ہوگا، تہذیبی روایات میں عمدہ ذوق دکھائی دینے لگے گا۔ خاندان کے افراد میں ہم آہنگی پیدا ہوگی اور باہمی ملاقاتوں میں مادی چیزوں کو زیر بحث لانے کے بجائے آپ تعمیری گفتگو کرسکیں گے۔
6۔ گھر اور آفس میں لائبریری:گھر اور آفس میں لائبریری ضرور بنائیں۔ اس سے گھر کا ماحول سنجیدہ بنے گا۔ بچے بوڑھے جوان اور آنے جانے والے سب اس شجر ثمر بار سے استفادہ کرسکیں گے۔
7۔ خوشی کے مواقع پر کتاب کا ہدیہ:جب بھی عزیز و اقارب میں کوئی خوشی کا موقع آئے۔ شادی بیاہ ہو، کسی بچے کا رزلٹ اچھا آجائے، کسی کی سالگرہ ہو آپ ایسے مواقع پر کتاب یا کہانیوں کا کوئی سیٹ گفٹ کیجیے اس سے کم از کم پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا۔ کتاب سے شناسائی پیدا ہوگی۔ آج بصارت آگئی تو کل بصیرت بھی پیدا ہوجائے گی۔
8۔ بیگ میں دعوۃ مٹیریل ضرور رکھیں: یہ وہ مرحلہ ہے جس میں آپ عملی دعوت کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ انبیاء کرام کی دعوت کا منہج ہے کہ وہ فرداً فرداً لوگوں سے ملاقات کركے انھیں اپنا پیغام پہنچاتےتھے۔ دعوۃمٹیریل بیگ میں رکھ کر آپ جہاں کہیں بھی ہوں، گلی کوچے آفس،پبلک مقامات، بازار، سفرو حضر، خوشي و غم ہر جگہ آپ بطور داعی چل پھر رہے ہوں۔ اس کا اتنا بڑا فائدہ ہے کہ آپ اپنے کام سے جارہے ہوں گے لیکن آپ محسوس کریں گے کہ میرے اوپر تو دعوت کی ذمہ داری بھی ہے۔ یہ ذمہ داری آدمي کے اندر یہ جذبہ پیدا کردیتی ہے کہ کب اسے کوئی انسان ملے اور وہ اسے کوئی دعوتی کتاب، رسالہ، پمفلٹ یا قرآن ہدیہ کرے۔ دعوت کا مٹیریل بیگ میں رکھنے سے جہاں آپ کے عمل میں بطور داعی اخلاص آئے گا وہاں پر مدعو کی تلاش میں رہنا بھی آپ کی عادت ثانیہ بن جائے گی۔
یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ داعی تمام لوگوں کے ساتھ انتہائی کریمانہ اخلاق سے پیش آئے، خواہ وہ کسی مذہب یا علاقے کا انسان ہو، تاکہ وہ مدعو کا دل جیت سکے۔ چاهے اس کے لیے اسے اپنے حق سے کم پر راضی ہونا پڑے۔ وہ مدعو سے اپنائيت كے ساتھ بات کرے، پھر مختصراً اپنا تعارف كرائےتاکہ دعوۃ لٹریچر یا قرآن پاک ہدیہ کرنے کے لیے ماحول سازگار ہوسکے۔
9۔ پبلک مقامات پر دعوتی مٹیریل رکھنا: جہاں بھی عوامی اجتماع ہو، جیسے كوئي جلسہ، سیمینار یا کانفرنس ، وہاں جانا اور دعوتی مٹيريل تقسیم کرنا۔ اسی طرح مساجد،ا سکولس، کالجز، ہسپتالوں،پارکوں اور ریلوے اسٹیشنز وغیرہ میں دعوۃ مٹیریل رکھنا۔ واضح رہے کہ کچھ جگہوں پر اسکول یا کالج وغیرہ میں دعوتی کام کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ہے، یا حکومتی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ہے تو ایسی جگہوں پر دعوتی کام سے دور رہنا چاہیے۔
10۔ اہل علم کو کتابیں گفٹ کرنا: مثلاًاپنے محلے کی مسجد کے امام کو، اسکول کے استاد، پرنسپل یا دوسرے پڑھے لکھے لوگوں کو کتابیں گفٹ کرنا، وغیرہ۔
11۔ مخصوص اجتماع: ہرا سکول، کالج ،یونیورسٹی اور مدرسے میں کتاب میلہ، ریزلٹ ڈے یا پھر اینول ڈے منایا جاتا ہے۔ اس سے با خبر رہیں اور کوشش کریں کہ دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر وہاں پر دعوۃ اسٹال ضرور لگائیں۔
12۔ کم سے کم دعوت: سوشل میڈیا پر جب کوئی حکمت و معرفت کی بات دیکھیں، اس کو پڑھیں، اورپھر شیئر کریں،یہ نہ دیکھیں کہ کس نے یہ شیئرکی ہے۔ بلکہ یہ دیکھیں کہ جس طرح اس پوسٹ سے آپ کو فائدہ ہوا ہے، آپ كے شیئر کرنے سے کسی اور کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس لیے یہ کم سے کم دعوت ہے کہ آپ ہر اچھی بات کو شیئر کریں۔ اسی طرح جو بھی فرینڈ ریکویسٹ آئے اسے ضرور قبول کریں ۔
13۔ اسٹڈی سرکل:یعنی کتابوں کے مطالعہ کا حلقہ قائم کیجیے۔ اس میں خاص طور پر اپنے خاندان کے لڑکے لڑکیوں کو شامل ہونے کے لیے دعوت دیجیے،تاکہ وہ مباحثے میں آئیں، ان کے شبہات دور ہوں اور وہ یقین کے ساتھ دین پر چلنے والے بنیں۔ اس طرح دیے سے دیا جلے گا۔
14۔ کارِ دعوت کے لیے دعائیں:بقول مولانا وحیدالدین خاں صاحب ، دعوت کا کام دعاؤں کے سائے میں چلتا ہے۔ ہر نماز میں دعوت کی توفیق اور داعیوں کی نصرت کے لیے اہتمام کے ساتھ دعائیں مانگیں۔ جب آپ کسی کو کتاب دیں اس کے لیے خصوصی دعا کریں۔ دعا عمل کے لحاظ سے بظاہر ایک چھوٹاعمل لگتا ہے، مگر نتیجے کے اعتبار سے دعا ایک اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ دعا سے آپ کے اندر کے داعی کو مہمیز ملتی ہے۔ داعیانہ ذمہ داریوں کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ بے قراری میں اضافہ ہوتا ہے، اور آپ تڑپ اٹھتے ہیں اور لرزتے ہونٹوں سے آرزو کرتے ہیں کہ خدایا مجھے توفیق دے کہ میں تمام انسانوں کو تیرے منصوبہ تخلیق سے آگاہ کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت کی دعا کرنے سے خدا خصوصی طور پر داعی کی نصرت کے لیے آجاتا ہے۔ (شاہ خالد، پاکستان)