دو قسم کے انسان
دنیا میں دو قسم کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو زیادہ بولتے ہیں، لیکن کام میں پیچھے رہتے ہیں۔ اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو بقدرِ ضرورت بولتے ہیں، ورنہ چپ رہتے ہیں۔انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جو لوگ زیادہ بولتے ہیں،وہ کم سوچتے ہیں۔ اور جولوگ کم بولتے ہیں وہ زیادہ سوچتے ہیں، اورجو بات بھی کرتےہیں، سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے انسان کو غیر سنجیدہ انسان کا نام دیا جاسکتا ہے، اور دوسری قسم کے انسان کو سنجیدہ انسان۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ زیادہ بولنے والا انسان کرنے کے معاملے میں کم ہوگا۔ اس کے برعکس، جو انسان کم بولے گا، وہ کرنے کے معاملے میں زیادہ ہوگا۔ عقل مندآدمی وہ ہے، جو کسی کے بولنے کو نہ دیکھے، بلکہ یہ دیکھے کہ وہ عمل کے معاملے میں کیسا ہے۔ قاسم بن محمدتابعی (وفات107ھ) بیان کرتے ہیں کہ میں نےدیکھا ہےکہ اصحابِ رسول عمل سے خالی باتوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ امام مالک نے بتایا کہ اصحابِ رسول انسان کے عمل کو دیکھتے تھے، وہ انسان کے بولنے کو نہیں دیکھتے تھے(الجامع لابن وہب:406)۔
اس سلسلے میں قرآن میں دو متعلق آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بات بہت ناراضی کی ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرو نہیں (61:2-3)۔مفسر ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ ان لوگوں پر تنقید ہے، جو کہتے ہیں، لیکن کرتے نہیں، وعدہ کرتے ہیں، لیکن اس کو پورا نہیں کرتے۔ بعض علما نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے ، خواہ جس سے وعدہ کیا ہے وہ اس کی تاکید کرے یا نہ کرے(تفسیر ابن کثیر، جلد8، صفحہ105)۔
حقیقی انسان وہ ہے، جس کے کہنے اور کرنے میں مطابقت ہو، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ آدمی کو اپنے کہنے کی قیمت دینی پڑے ۔جب ایک انسان کے اندر یہ صفت پیدا ہوجائے تو وہ بولنے سے پہلے بہت زیادہ سوچے گا۔وہ کوئی ایسی بات بولنے سے بچے گا، جو وہ پورا نہ کرسکتا ہو۔ اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ ایمان والے کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات کرے یا چپ رہے( صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018 ) ۔