یک طرفہ اقدام کی ضرورت

صلح حدیبیہ (۶ ھ) تاریخ ِاسلام کا مشہور واقعہ ہے۔ اس موقع پر مخالفینِ اسلام نے صلح کی جو شر طیں پیش کیں، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بحث کے بغیر منظور کر لیا۔ یہ شرطیں سب کی سب مخالفین اسلام کے حق میں تھیں۔ چنانچہ جو مسلمان آپ کے ساتھ تھے ان کی اکثریت پر یہ صلح بے حد شاق گزری۔ حتی کہ بعض صحابہ یہ کہہ پڑے کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں۔ اور کیا فریق ثانی باطل پر نہیں ہے۔ اگر ہم حق پر ہیں اور فریقِ ثانی باطل پر ہے تو ہم اس قسم کی ذلت آمیز شرائط پر صلح کیوں کریں۔

پیغمبر اسلام اور عام مسلمانوں کے درمیان رائے کا یہ فرق کیوں ہوا۔ اس کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام مسئلہ کو ایک طرفہ طور پر دیکھ رہے تھے اور عام مسلمان دو طرفہ طور پر۔ عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ کچھ ہم جھکیں اور کچھ وہ جھکیں۔ کچھ شرطیں ہماری مانی جائیں کچھ شر طیں ان کی مانی جائیں۔ یعنی معاملہ کو دو طرفہ بنیاد پر طے کیا جائے۔ جب کہ بغیر اسلام کا خیال تھا کہ ہم اس بحث کو نہ چھیڑیں کہ اس معاملہ میں کون حق پر ہے اور کون ناحق پر۔ اس بحث سے صرف ِنظر کرتے ہوئے ہم یک طرفہ طور پر فریق ثانی کی پیش کی ہوئی شرطوں پر راضی ہو جائیں۔

 مسلمانوں کی رائے خالص منطقی اعتبار سے بالکل درست تھی۔ نظری انصاف کے اعتبار سے یقینا ًیہی ہونا چاہیے تھا کہ دونوں میں سے کوئی فریق ضد نہ کرے، بلکہ اصولی بنیاد پر جو بات صحیح ہےاس پر دونوں فریق راضی ہو جائیں۔

 مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم معاملہ کو عملی نقطۂ نظر سے دیکھ رہے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ اگر اصول اور منطق کی بنیاد پر اصرار کیا گیا تو فریق ثانی ہر گز راضی ہونے والا نہیں ہے۔ اس لیے عملی اعتبار سے مسئلہ کا ممکن حل صرف یہ ہے کہ فریق ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان لیا جائے۔ اس کا فوری فائدہ یہ ہو گا کہ دونوں فریقوں میں ٹکراؤ کی صورت حال ختم ہو جائے گی۔ اور مسلمانوں کے لیے کام کے مواقع نکل آئیں گے۔ دو طرفہ بنیاد پر اصرار عملاً دونوں فریقوں کے درمیان ٹکراؤ کو برقرار رکھنے کے ہم معنی تھا۔ جب کہ یک طرفہ بنیاد پر راضی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ جنگی ٹکر اؤ ختم ہو، اور میدان جنگ سے باہر جو ممکن دائرہ ہے، اس میں مسلمانوں کے لیے دعوت اور تعمیر کی جدوجہد کی راہیں کھل جائیں۔

دور نبوت کا یہ واقعہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے رہنما واقعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان آج جن حالات میں گھرے ہوئے ہیں وہ انتہائی پیچیدہ ہیں۔ پچھلے پچاس سال کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مسئلہ کا منطقی تجزیہ کرنا یا فریق ثانی کے سامنے اصولی مطالبات کا میمورنڈم پیش کر نا موجودہ حالات میں اتنا زیادہ بے فائدہ ہے کہ اس کی قیمت کاغذ کے اس ٹکڑے کے بقدر بھی نہیں ہے جس پر یہ منطقی اور اصولی مطالبات لکھے جاتے ہیں۔ اصولی مطالبہ صرف اس وقت با معنی ہوتا ہے جب کہ فریق ثانی اصول کے آگے جھکنے کے لیے تیار ہو۔ اور موجودہ صورت حال میں اس کا کوئی ادنی امکان بھی نہیں۔

مسلمان اب تک جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ مسئلہ کو دو طرفہ بنیاد پر طے کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ مسئلہ کا واحد قابل ِعمل حل صرف یہ ہے کہ اس کو یک طرفہ بنیا د پر طے کیا جائے۔ اس وقت مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسلمانوں نے فرصتِ عمل کو کھو دیا ہے۔ ان کے لیے ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے کوئی تعمیری منصوبہ بنائیں اور اس کی طرف اپنا سفر شروع کریں۔ اگر مسلمان اس قربانی پر راضی ہو جائیں کہ وہ فریق ثانی سے اپنے تمام جھگڑوں کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیں تو اس کا نقد فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمان فوراً  ہی اپنے لیے عمل کا موقع پالیں گے۔ جس کو وہ تقریبا ً نصف صدی سے کھوئے ہوئے ہیں۔ عمل کا موقع پا نا گویا سفر کے آغاز کو پانا ہے۔ اور جو لوگ اپنے سفر کے آغاز کو پالیں وہ یقیناً  ایک روز اپنے سفر کے اختتام کو پہونچ کر رہتے ہیں۔

یہ دنیا اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں جو نقصان کو برداشت کرے وہی فائدہ کو حاصل کرتا ہے یک طرفہ طور پر مسئلہ کو ختم کرنا اسی اصول کی تعمیل ہے۔ یک طرفہ طور پر مسئلہ کوختم کرنے پر راضی ہونا بلاشبہ اپنے اندر نقصانات کے پہلور کھتا ہے مگر موجودہ دنیا میں کسی بھی قسم کی ترقی کا یہی واحد زینہ ہے۔ موجودہ دنیا کا قانون یہ ہے کہ جو لوگ صرف فائدہ چاہیں ان کے حصہ میں آخر کار صرف نقصان آئے، اور جو لوگ ابتدائی نقصان کو برداشت کریں وہ بالآخر ہر قسم کے فائدوں کے مالک بنیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom