تدبیر نہ کہ اشتعال
۲۰ فروری ۱۹۹۱ کو مئو کے عبدالجبار صاحب (۶۴ سال) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہر فساد کا واحد حل حکیمانہ تدبیر ہے۔اگر حکمت کا طریقہ اختیار کیا جائےتو کبھی کوئی فساد نہ ہوگا۔اس سلسلے میں انھوں نے اپنے ذاتی تجربہ کے کئی واقعات بتائے۔
مئو کے محلّہ مرزا ہادی پورہ میں عبدالحکیم گرھست صاحب رہتے ہیں۔ان کے گھر کے پاس ایک مسجد ہے جو "جامع مسجد احناف" کے نام سے مشہور ہے۔۱۹۸۱ کا واقعہ ہے۔رات کے وقت کسی نے خنزیر کا مرا ہوا بچہ اس مسجد میں ڈال دیا۔صبح کو فجر کی نماز کے لیے لوگ مسجد آئے تو دیکھا کہ وہاں خنزیر پڑا ہوا ہے۔
خبر مشہور ہوتے ہی سارے مئو میں سنسنی پھیل گئی۔۸ بجے تک عبدالحکیم گرھست صاحب کے مکان پر بھیڑ لگ گئی۔ مسلمان بڑی تعداد میں جمع ہوگئے۔لوگ سخت مشتعل تھے۔اور قریب تھا کہ کوئی کارروائی کر بیٹھیں اور پھر سارے شہر میں فساد کی صورت پیدا ہوجائے۔مگر عبدالحکیم گرھست صاحب نے لوگوں کو سختی سے روکا اور پر امن رہنے کی تاکید کی۔
اس کے بعد انھوں نے پولیس کو ٹیلی فون کیا۔فوراً پولیس جائے واردات پر پہونچ گئی۔پولیس والوں نے صدر دفتر اعظم گڈھ کو بھی ٹیلی فون کردیا تھا۔چنانچہ وہاں سے بھی افسران آگئے۔پولیس افسروں نے آکر مسلمانوں کو سمجھایا اور کہا کہ آپ لوگ پر امن رہیں، ہم کو کارروائی کرنے کا موقع دیں۔اس کے بعد پولیس والوں نے خنزیر کو وہاں سے اٹھوایا۔اور فائر بریگیڈ کو بلاکر دور تک پانی سے اچھی طرح دھودیا۔اس کے بعد معاملہ وہیں کا وہیں ختم ہوگیا۔ کسی قسم کے فساد کی نوبت نہیں آئی۔جب کہ اس طرح کے ایک واقعہ پر اکثر پورا شہر فساد کی زد میں آجاتا ہے۔
اس طرح کے مواقع پر بہترین عقلمندی یہ ہے کہ مسلمان امن پسندی کاثبوت دیں۔وہ خود کوئی جارحانہ کارروائی نہ کریں۔بلکہ معاملہ کو پولیس کے حوالہ کردیں۔اگر وہ ایسا کریں تو یقینی ہے کہ کسی قسم کا فسا د نہیں ہوگا۔خنزیر ڈالنے والے اس لیے خنزیر ڈالتے ہیں کہ مسلمان مشتعل ہو کر کوئی جارحانہ کارروائی کردیں تاکہ انھیں مکمل فساد کرنے کا موقع مل جائے۔اس سازش کا توڑ یہ ہے کہ مسلمان بالکل خاموش رہیں اور پولیس کو اطلاع دینے کے سوا کوئی اور کارروائی نہ کریں۔ یہ فساد کے بم کو ناکارہ کردینے کے ہم معنی ہوگا۔