سیاست، دعوت

پاکستان کی ایک خاتون بیگم شائستہ اکرام الله (۷۵ سال) کا مضمون انگریزی ماہنامہ ریڈرس ڈائجسٹ کے شمارہ مئی ۱۹۹۱  میں چھپا ہے۔ وہ تقسیم سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کی ایک سرگرم کارکن تھیں۔ تقسیم کے بعد ۱۹۴۷ سے ۱۹۵۴ تک وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی ممبر رہیں۔ ۱۹۶۴ سے ۱۹۶۷ تک وہ مرا کو میں پاکستان کی سفیر تھیں۔ مذکورہ مضمون کا عنوان ہے :"محمد علی جناح"  اس مضمون میں انھوں نے مسٹر محمد علی جناح کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ بٹوارہ سے پہلے ۱۹۴۵ میں پیش آیا۔ وہ لکھتی ہیں :

I'd been invited by the government to represent India at an international peace conference in San Francisco, but the leader of our political party was telling me I shouldn't go. His reason: our party, the All-India Muslim League, was committed to non-cooperation with India's British rulers; as a disciplined Leaguer, I could not be part of a government delegation. I was tempted to go, so I said, "Can't I go and not talk politics?" "Then what will you talk about?" Mohammed Ali Jinnah asked sharply."The man in the moon?" His face softened. "I know how disappointed you are," he said, "but a principle is at stake. One day, I promise, you will go to an international conference- and with honour, representing your country.” That encounter took place in 1945, but even today the wonder of it moves me.

Reader's Digest. New Delhi, May 1991, pp. 29-30

برٹش گورنمنٹ کی طرف سے مجھے یہ دعوت دی گئی تھی کہ میں سان فرانسسکو میں ہونے والی ایک بین اقوامی امن کا نفرنس میں ہندستان کی نمائندگی کروں۔ مگر ہماری سیاسی پارٹی کے قائد نے مجھ سے کہا کہ مجھ کو اس کا نفرنس میں نہیں جانا چاہیے۔ ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ تھی کہ ہماری پارٹی آل انڈیا مسلم لیگ، اس کی پابند ہے کہ وہ ہندستان کے برٹش حکمرانوں سے تعاون نہیں کرے گی۔ لیگ کی ایک با ضابطہ فرد کی حیثیت سے مجھ کو ایک سرکاری وفد کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔ میں اس کانفرنس میں جانے کی طرف راغب تھی۔ اس لیے  میں نے کہا کہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں جاؤں مگر وہاں میں سیاست کی بات نہ کروں۔ محمد علی جناح نے تیزی سے پوچھا کہ پھر اور کون سی بات تم وہاں کرو گی۔ کیا چاند پر انسان کے بارےمیں۔ اس کے بعد انھوں نے نرمی کے ساتھ کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس سے تم کو کتنی زیادہ مایوسی ہوگی۔ مگر یہاں ایک اصول خطرہ میں ہے۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ایک دن تم ایک بین اقوامی کانفرنس میں جاؤ گی اور عزت و وقار کے ساتھ اپنے ملک کی نمائندگی کرو گی۔ مسٹر جناح کے ساتھ میرا یہ سامنا ۱۹۴۵ میں ہوا تھا، مگر آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میرے اوپر اس کا عجیب تاثر ہوتا ہے۔

مذکورہ بین اقوامی کانفرنس امن کے موضوع پر ہو رہی تھی۔ یہاں موقع تھا کہ عالمی شخصیتوں کے سامنے اسلام کی امن سے متعلق تعلیمات پیش کی جائیں۔ اس عالمی اسٹیج کو اسلام کے تعمیری پیغام کے اعلان کے لیے  استعمال کیا جائے۔ مگر مسٹر محمد علی جناح کے ذہن پر سیاست کا اتنا غلبہ تھا کہ انھیں اس کے سوا کوئی اور قابلِ ذکر بات معلوم ہی نہ تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک عالمی کانفرنس میں اگر سیاست کی بات نہ کہنا ہو تو پھر اور کون سی بات ہے جو وہاں کہی جائے گی۔

 تاہم یہ صرف مسٹر جناح کا معاملہ نہیں، یہی موجودہ زمانے  کے تمام مسلم قائدین کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے  کے ہرمسلم قائد کا یہ حال ہوا کہ وہ سیاسی محرک کے تحت اٹھا۔ اس کی پوری سوچ سیاسی رخ پر چل رہی تھی۔ اس لیے  اس کو سیاست کے سوا کوئی اور کرنے کا کام معلوم ہی نہ تھا۔ ہر ایک بس سیاست کے میدان میں اپنی سرگرمیاں دکھاتا رہا۔ سیاست کے باہر اس کو کوئی کام نظر نہ آیا جس میں وہ اپنے کو یا اپنے ساتھیوں کو مصروف کرے۔

دور جدید کے انقلاب نے ہمارے لیے  جو سب سے بڑا میدان کھولا وہ اسلامی دعوت کا میدان تھا۔ اس دور میں پہلی بار مذہب پر آزادانہ غور و فکر کی فضا پیدا ہوئی۔ جدید حالات نے اس کو ممکن بنایا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے اہتمام میں مذہبی اور روحانی کا نفرنس کریں، اور دوسرے مذاہب کے ساتھ اسلام کے نمائندوں کو بھی دعوت دیں کہ آپ وہاں آکر اسلام کی تعلیمات پیش  کریں۔ جدید مواصلاتی ذرائع نے سفر کو اور پیغام رسانی کے عمل کو بے حد آسان بنا دیا۔

 مزید یہ کہ موجودہ زمانے  میں پہلی بار مذاہب کی آزادانہ تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق نے خالص علمی اور تاریخی طور پر یہ ثابت کیا کہ تمام مذاہب غیر معتبر ہیں۔ مذاہب کی فہرست میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو علمی طور پر ثابت شدہ اور تاریخی طور پر قابل اعتبار ہے۔

 ایسی حالت میں مسلمانوں کو یہ کرنا تھا کہ وہ ہر دوسرے مسئلہ کو نظر انداز کر کے اسلام کےپیغام رحمت کو تمام قوموں تک پہنچائیں۔ مگر مسلمانوں نے اس کے بالکل برعکس عمل کیا۔ انھوں نے اسلام کی پیغام رسانی کے کام کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ اور نام نہاد سیاسی جہاد میں ہمہ تن مشغول ہو گئے۔ حتی کہ ان کا یہ حال ہوا کہ ان کے بڑے بڑے رہنماؤں تک کو شعور کے درجہ میں بھی اس کا احساس نہ رہا کہ اسلام کی دعوت بھی کوئی کام ہے جس کے لیے  انھیں دوسری قوموں کے درمیان متحرک ہونا چاہیے۔ آج کوئی مسلم جماعت تو درکنار، پوری مسلم دنیا میں کوئی قابل ذکر فرد بھی نہیں جس کو حقیقی طور پر دعوت الی اللہ کا شعور ہو، اور وہ اس اہم ترین کام میں فی الواقع اپنے آپ کو لگائے ہوئے ہو۔

 حضرت یونس علیہ السلام سے دعوت الی اللہ کے معاملہ میں جزئی اور اجتہادی کو تاہی ہوئی تھی۔ اس کے نتیجہ میں وہ مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیے گئے۔ موجودہ زمانے  کے مسلمانوں نے یہی کو تا ہی مکمل طور پر اوربد ترین طور پر کی ہے۔ یہ بلاشبہ اللہ کی ناراضگی کی بات ہے۔ چنانچہ موجودہ زمانے  میں پوری ملت مسلمہ مسائل کے پیٹ میں ڈال دی گئی۔ مسائل کی مچھلی نے ان کو نگل رکھا ہے۔ یہ حالت کسی ایک ملک کی نہیں۔ ہندستان، پاکستان، بلاد ِعربیہ، اور دوسرے تمام علاقوں کے مسلمان مسائل کے شکنجہ میں گرفتار ہیں۔ ان کی ہر کوشش اس کی شدت میں اضافہ کر رہی ہے، وہ اس میں کوئی کمی نہیں کرتی۔

"مسائل کی مچھلی" کے پیٹ سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے۔ مسلمان اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوں۔ وہ دوسری قوموں کو حریف اور رقیب سمجھنے کا مزاج ختم کریں۔ وہ ان سے مدعووالا معاملہ کریں۔ وہ ان کے اور پر دعوت الی اللہ کی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ یہی مسائل کے پیٹ سے نکلنے کا واحد را بستہ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرار استہ نہیں جو انھیں اس گرفتاری سے نجات دینے والا ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom