ایک سفر
مئی ۱۹۹۱ کے آخری ہفتہ میں پٹنہ سے مسٹر ایم ٹی خان نے ٹیلیفون پر بتایا کہ پٹنہ کے الرسالہ ریڈرس فورم کی طرف سے یہ طے کیا گیا ہے کہ شہر میں" الرسالہ سمپوزیم "کے نام سے ایک اجتماع کیا جائے۔ یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ میں نے فوراً اس کی تائید کی۔ اس کے بعد چند بار ٹیلیفون پر مزید گفتگو ہوئی۔ آخر کار یہ طے پایا کہ پٹنہ میں ۲۸ جولائی ۱۹۹۱ کو الرسالہ سمپوزیم منعقد کیا جائے۔ پٹنہ کے ساتھیوں کی خواہش پر مزید یہ طے ہوا کہ میں بھی اس میں شرکت کروں۔
۲۶ جولائی ۱۹۹۱ کی شام کو نئی دہلی سے مگدھ اکسپرس کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ اپنے کیبن میں داخل ہوا تو پہلا احساس یہ تھا کہ انڈیا کا فرسٹ کلاس باہر کے ملکوں کے سکنڈ کلاس سے بھی کمتر ہے۔ چھوٹے چھوٹے ملکوں، مثلاً سنگا پور اور کو ریا میں آپ جائیں تو ہر طرف آپ کو یہ محسوس ہو گا کہ آپ ایک ترقی یافتہ ملک میں چل رہے ہیں۔ وہاں کی ہر چیز جدید معیار کے مطابق نظر آئے گی۔ مگر انڈیا میں کوئی بھی چیز جدید معیار ترقی کے مطابق نہیں۔
اس پسماندگی کی علامت وہ فقرہ تھا جو میرے ٹکٹ کی پشت پر لکھا ہوا تھا۔ وہ ہندی میں یہ تھا کہ ٹکٹ پر انکت پرستھان سمیں پر یو رتن ہو سکتا ہے۔ اس کا ایک تجربہ مجھ کو یہ ہوا کہ مگدھ اکسپرس جاتے ہوئے شاید اتفاقاً وقت پر پٹنہ پہنچ گئی۔ مگر واپسی میں یہی گاڑی دو گھنٹہ لیٹ ہو کر دہلی پہنچی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس قسم کی تاخیر نا قابل برداشت سمجھی جاتی ہے، کیوں کہ وہ قومی دولت کے ضیاع کے ہم معنی ہے۔ مگر جہاں پانے کی تڑپ نہ ہو وہاں کھونے کا احساس بھی اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ میں فرانس تباہ ہوگیا تھا۔ مگر اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ تیز رفتار ٹرین فرانس میں ہے۔ جاپان کی بولیٹ ٹرین کے مقابلہ میں فرانس نے ٹی جی وی ٹرین بنائی ہے۔ ان ٹرینوں کی اوسط رفتار ۲۷۰ سے ۳۰۰ کیلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ ۱۹۸۱ میں پیریس اور لیونز کے درمیان اس تیز رفتار ٹرین نے ۴۰ املین مسافر منتقل کیے اور ایک بھی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا۔ فرانس ریلوے نے مسافر کے بغیر نمائش کے طور پر ایک ٹرین پیریس اور تورس کے درمیان چلائی۔ یہ ٹرین ۵۱۵ کیلو میٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ یہ رفتار بعض ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس یورپ کا ایک کمزور ملک بن گیا تھا۔ اس کی ریلوے یورپ کی سب سے زیادہ ناقص ریلوے تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرانس نے اپنے اوپر افریقہ کے مقبوضات (الجیریا وغیرہ) کا بوجھ لاد رکھا تھا جن کو وہ فرانس کا حصہ کہتا تھا۔ فرانس کے سابق صدر جنرل ڈیگال نے طےکیا کہ افریقی مقبوضات کو آزاد کر دیا جائے۔ ڈیگال کا یہ فیصلہ فرانس کے قومی وقار کے خلاف تھا۔ لوگوں نے کہا کہ ڈیگال فرانس کو پست اور ذلیل کر دینا چاہتا ہے۔ ڈیگال نے ۱۹۷۰ میں اس کا جواب دیتے ہوئے کہا :
On the slope that France is climbing, my mission is always to guide her toward the heights, while all the voices from below call on her ceaselessly to come down again.
فرانس اس وقت ڈھلوان پر جا رہا ہے۔ میرا مشن یہ ہے کہ اس کو اوپر اٹھاؤں، جب کہ دوسرے لوگ اس لیے چیخ پکار کر رہے ہیں کہ اس کو دوبارہ نیچے کی طرف دھکیل دیں(ٹائم میگزین ۱۵ جولائی ۱۹۹۱)
ڈیگال نے اپنی نا مقبولیت کا خطرہ مول لے کر افریقہ کے مقبوضات کو آزاد کر دیا۔ اس کے فوراً بعد فرانس ترقی کرنے لگا۔ آج فرانس دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ مستقبل کی ترقی کے لیے حال کی بے ترقی کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس قربانی کے بغیر کسی کو ترقی کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔
ٹرین کے ایک ساتھی سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ہمارے ملک کے جس پہلو کو دیکھا جائےاس پر پسماندگی کی چھاپ پڑی ہوئی نظر آئے گی۔ اس کا سبب بنیادی طور پر ایک ہے، اور وہ ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ ۱۹۴۷ میں جب ملک آزاد ہوا تو اس کی لیڈرشپ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں چلی گئی جو ذ ہنی طور پر پوری طرح سوشلسٹ تھا۔ سابق وزیر اعظم جواہرلال نہر و آزادی سے پہلے اپنی آپ بیتی میں لکھ چکے تھے کہ ہمارے مسائل کا کوئی بھی حل اشتراکی نظام (Socialist order)کے سوا نہیں ہے، پہلے قومی دائرہ میں، اور پھر ساری دنیا میں، جس میں دولت کی پیدائش او تقسیم ریاست کی نگرانی میں مفاد عامہ کے لحاظ سے کی جائے (آٹوبیا گریفی، لندن ۱۹۳۶، صفحہ ۵۲۳) جس اشتراکی نظام نے روس کو برباد کیا، اس نے انڈیا کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
میرے ایک ہم سفر نے ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ کا ہندی اخبار "آج " خریدا۔ میں نے دیکھا تو اس کے اندر کے صفحہ پر ایک مضمون تھا جس کا عنوان تھا، پنڈت نہرو بنام من موہن سنگھ۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ موجودہ وزیر مالیات نے کس طرح نہرو کی سابقہ اقتصادی پالیسی کو بدل کر اس کو بالکل دوسرے رخ پر ڈال دیا ہے۔ انڈیا ٹوڈے (۱۵ اگست) نے اس انقلابی واقعہ پر یہ سرخی لگائی ہے کہ لائسنس راج کا خاتمہ(Ending the Licence Raj) ٹائم میگزین (۵ اگست) نے اس کے بارے میں دو صفحہ کی رپورٹ چھاپی ہے اور اس کی سرخی یہ ہے :
After nearly a half-century of socialist controls, a new government ventures to catch the free-market winds sweeping the world. (p. 22)
کانگریس پارٹی کا ڈائمنڈ جوبلی سشن جنوری ۱۹۵۵ میں آوڈی (مدراس) میں ہوا تھا۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے تالیوں کی گونج میں یہ رزولیوشن منظور کرایا کہ ہندستان میں سوشلسٹ طرز کا سماج(Socialistic pattern of society) بنایا جائے گا (نیشنل ہیرالڈ ۲ جنوری ۱۹۵۵)
اسی زمانے میں راقم الحروف نے ۴۸ صفحہ کی ایک کتاب (ہندستان کی منزل) شائع کی تھی۔ اس میں بتایا تھا کہ سوشلزم ہمارے ملک کو تباہ کر دے گا۔ آج یہ الفاظ واقعہ بن چکے ہیں۔ اب موجودہ وزیر علم نرسمہاراؤ اسی سوشلسٹ کھنڈر پر ایک نئے ہندستان کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم موجودہ حالات میں اس کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پر امید رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔
۱۹۱۷ میں جب روس میں اشتراکی انقلاب آیا تو اس نے اتنے طاقت ور انداز میں اس کی فرضی خوبیوں کا پروپگنڈا کیا کہ ساری دنیا میں سوشلزم کا لفظ ترقی پسندی کا نشان بن گیا۔ مگر ۷۵ سال بعد آج ہر شخص سوشلزم کو بربادی کا جیل خانہ سمجھ رہا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک نظر یہ لفظی طور سےانتہائی حسین ہونے کے باوجود عملی طور پر انتہائی حد تک تباہ کن ہو سکتا ہے۔
درمیان میں ایک چھوٹے اسٹیشن پر گاڑی رکی۔ حالاں کہ یہ اس کے رکنے کا اسٹیشن نہ تھا۔ چند منٹ بعد مقابل کی پٹری سے ایک اور ٹرین شور مچاتی ہوئی آئی اور آگے چلی گئی۔ معلوم ہوا کہ اس دوسری ٹرین کو گزارنے کے لیے ہماری ٹرین روکی گئی تھی۔ یہی اس دنیا میں سفر کا قاعدہ ہے۔ یہاں ہر گاڑی کو دوسری گاڑی کے لیے راستہ دینا پڑتا ہے۔ جو گاڑی اس "رعایت " کے لیے تیار نہ ہو وہ خود بھی تباہ ہو گی اور دوسری گاڑی کو بھی تباہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی۔
یہی اصول انسانی زندگی کا بھی ہے۔ انسانی عمل کی شاہراہ پر بھی بیک وقت بہت سے انسان اپنااپنا سفر طے کر رہے ہیں۔ یہاں بھی کسی کے لیے محفوظ سفر کی ضمانت صرف یہ ہے کہ جب بھی دوسر ے کسی انسان سے ٹکراؤ کا اندیشہ ہو تو وہ فوراً فریق ثانی کی رعایت کے مذکورہ اصول پر عمل کرتے ہوئے اس کو گزرنے کا راستہ دے دے ہے۔ جو آدمی ایسانہ کرے وہ کبھی اپنی مطلوبہ منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔
گاڑی الہ آباد پہنچی تو ۲۷ جولائی کی صبح نمودار ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے چاروں طرف تاریکی کا غلاف پڑا ہوا تھا۔ اب چاروں طرف روشنی کی بہارنظر آنے لگی۔ کیسی عجیب ہے یہ دنیا جو اللہ تعالیٰ نے بنائی اور پھر اس کو انسان کی تحویل میں دے دیا۔ کوئی ہے جو اللہ کا شکر ادا کرے۔
ایک صاحب نے کہا کہ خدانے ہم کو پیدا کر کے ہم کو جنت دوزخ کے جھنجھٹ میں کیوں ڈالا۔ اس نے ہم کو پیدا ہی نہ کیا ہوتا۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ انسان کے اوپر اللہ کے بے شمار احسانات ہیں اور سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے انسان کے لیے ابدی جنت کے حصول کے امکانات کھول دیے۔ اللہ نے انسان کو غیر موجود سے موجود کیا۔ اس کو حیرت انگیز صلاحیتیں عطا کیں۔ اور پھر اس کو احساس لذت دیا جو ساری کائنات میں انتہائی نادر چیز ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس نے ایک ابدی لذت گاہ (جنت) پیدا کی۔ اللہ نے اس ابدی لذت گاہ کی ایک انتہائی وقتی قیمت مقرر کی۔ اس نے کہا کہ جو شخص موجودہ دنیا کی مختصر مدت میں حالت غیب میں خدا کا اعتراف کرے گا اور کسی مجبوری کے بغیر خود اپنے اختیار سے اس کے آگے جھک جائے گا، اس کو موت کے بعد اس ابدی لذت گاہ میں بسنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ یہ کتنی بڑی چیز کی کتنی چھوٹی قیمت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ صدیاں گزرگئیں اور آدمی اس جہانِ لذت کو پانے کا شوق نہ کر سکا۔
آخرت کی اس دنیائے لذت کو پانے کا موقع انسان کو صرف ایک بار ملا ہے۔ اس کے بعد یہ موقع ابدی طور پر ختم ہو جائے گا، مگر اس واحد قیمتی موقع کو انسان انتہائی بے دردی کے ساتھ کھو رہا ہے۔ کیسا عجیب ہے وہ انسان جو سب سے بڑی نعمت کے ساتھ سب سے بڑی بے اعتنائی کرے۔
مسٹر مہیش گوپ (Mahesh Gope) میرے ہم سفر تھے۔ ان کا تعلق ائر فورس سے ہے۔ وہ نئی دہلی میں ائر فورس کے ہیڈ کوارٹر میں رہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک بار وہ ایک نیتا کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ اتفاق سے نیتا صاحب کے کچھ نوٹ گم ہو گئے۔ وہ دوسرے مسافر پرشبہ کرنے لگے۔ مسٹر مہیش گوپ نے تلاش کیا تومعلوم ہوا کہ خود نیتا جی کی غفلت سے نوٹ پھسل کر سیٹ کے نیچے چلے گئے تھے اور وہاں موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کی کوئی بات بگڑے تو آپ اپنے آپ کو بلیم دیجیے۔ ہمارے سماج میں ساری خرابی اسی لیے آئی ہے کہ آدمی فور ادوسرے کو بلیم دینے لگتا ہے۔
دلدار نگر اسٹیشن پر گاڑی رکی تو اچانک پلیٹ فارم پر نعرہ ٔتکبیر، اللہ اکبر، نعرہ ٔرسالت محمد رسول اللہ کی آوازیں آنے لگیں۔ معلوم ہوا کہ ایک صاحب حج کر کے آئے ہیں اور اسی ٹرین سے یہاں اترے ہیں۔ حاجی صاحب کے استقبال کے لیے بہت سے مسلمان پلیٹ فارم پر جمع تھے۔ جیسے ہی حاجی صاحب اپنی بوگی سے باہر آئے، مسلمانوں کے نعروں سے پلیٹ فارم گونج اٹھا۔
میں نے سوچا کہ خدا اور رسول کا نام صحابہ کر ام کے لیے "عمل "کا عنوان تھا، موجودہ مسلمانوں کے لیے وہ "نعرہ " کا عنوان بن گیا ہے۔ یہی وہ اصل خرابی ہے جس کی بنا پر آج یہ حالت ہو رہی ہے کہ دین کے مظاہر تو مسلمانوں کے یہاں خوب ہیں مگر دین کی حقیقت کا ان کے یہاں کوئی وجود نہیں۔
ایک رات اور آدھا دن ٹرین میں گزارنے کے بعد ۲۷ جولائی کی دوپہر کو پٹنہ پہنچا۔ یہاں میرے جو ساتھی اسٹیشن پر موجود تھے ان میں سے ایک صاحب کالی وردی میں تھے۔ ان کے کوٹ پر ریلوے سروس کا بِلا لگا ہوا تھا۔ اسٹیشن پر ان کے دفتر کے کمرہ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم لوگ عدالت گنج کے لیے روانہ ہوئے جہاں مسٹر ایم ٹی خان کے مکان پر مجھے قیام کرنا تھا۔
شام کو ایک صاحب ملنے کے لیے آئے۔ وہ سفید کپڑے میں ملبوس تھے۔ میں ان کو پہچان نہ سکا۔ انھوں نے بتا یا کہ میں وہی ہوں جو ریلوے اسٹیشن پر آپ سے ملاتھا۔ لباس کے فرق کی بنا پر ان کو پہچاننے میں مجھے مشکل ہوئی۔ یہ ایک سادہ انسانی تجربہ ہے۔ مگر اسی قسم کے تجربہ کی مضمون بندی کر کے شاعر نے اس سے وحدت وجود کا مسئلہ نکال لیا اور کہا :
بہ ہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش من انداز قدت را می شناسم
ایک شخصیت کا مختلف لباس پہننے کے باوجود ایک رہنا بجائے خود ایک واقعہ ہے۔ مگر اس مثال سے یہ الہیاتی نظر یہ اخذ کر نا صحیح نہیں کہ ظاہری پیکر خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، سب کے اندر ایک ہی عظیم ہستی چھپی ہوئی ہے۔
میرا طریقہ ہے کہ جب مجھے کسی مقام کا سفر کرنا ہوتا ہے تو اس مقام کے بارے میں کتابوں سے معلومات حاصل کرتا ہوں۔ چنانچہ پٹنہ کے بارےمیں مختلف کتا بیں دیکھیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) میں پٹنہ کے بارے میں ایک صفحہ کا مضمون ہے۔ اس کے لکھنے والے پروفیسر بیج ناتھ پوری ہیں۔
یہ شہر ۴۸۷ق م میں پاٹلی پتر کے نام سے آبا د کیا گیا۔ پھر وہ پاٹن بنا اور آخر میں پٹنہ ہو گیا۔ مقالہ نگار نے لکھاہے کہ پٹنہ کی تاریخ کے بارے میں ساتویں صدی سے لے کر ۱۵۴۱ تک کچھ معلوم نہیں ہے، جب کہ افغان حکمران شیر شاہ سوری نے پٹنہ کے نام سے دوبارہ اس کی بنیاد ڈالی :
Nothing is known of its history from the 7th century until 1541, when it was refounded as Patna by the Afghan ruler Sher Shah. (13/1076)
شیر شاہ سوری نے تقریباً نو سو سال بعد پٹنہ کو از سر نو آباد کیا۔ مگر اس نے اس شہر کا نام شیرآباد نہیں رکھا بلکہ پٹنہ رکھا۔ لیکن بعد کو اورنگ زیب (وفات ۱۷۰۷) آیا تو اس نے پٹنہ کا نام اپنے پوتے عظیم کے نام پر عظیم آباد رکھ دیا۔ حالاں کہ اس کے بعد ۱۷۶۵ میں یہ شہر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ میں جا کر دوبارہ پٹنہ بن جانے والا تھا۔ اور خود شہزادہ عظیم کے لیے مقدر تھا کہ وہ تاریخ کے اندھیرے میں گم ہو کر رہ جائے۔
پٹنہ میں شہری اعتبار سے جو کچھ میں نے دیکھا اس کی نمائندگی ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل ایس کے سنہا کے ایک مضمون سے ہوتی ہے۔ یہ مضمون ٹائمس آف انڈیا کے پٹنہ اڈیشن (۲۸ جولائی ۱۹۹۱)میں چھپا تھا۔ اور اس کا عنوان تھا ––––– پٹنہ نراش کا شہر : Patna: The City of Despair
مضمون میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ صدی کے نصف اول میں پٹنہ کی آبادی تقریباً ایک لاکھ تھی۔ اب اس کی آبادی ایک ملین سے اوپر ہے۔ اسی نسبت سے انتظامی سروسوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مگر ورک کلچر (work culture) پیدا نہ ہونے کی بنا پر شہر گندگی، اور بدعنوانی کا اڈہ بنا ہوا ہے۔
پٹنہ کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہونا ایک معمول کا واقعہ بن چکا ہے۔ سڑکوں پر گندگی شاید ملک کے تمام شہروں سے زیادہ ہے۔ اس قسم کی تفصیلات دیتے ہوئے مضمون نگار نے لکھا تھا کہ پہلے یہ حال تھا کہ گایوں اور بھینسوں کو سڑکوں پر پھرنے اور گندگی کرنے کی اجازت نہ تھی۔ مگر اب حالات مختلف ہیں۔ آج مذہبی اور سیاسی اسباب سے ہم گایوں اور بھینسوں کو سڑکوں پر گھومنے سے نہیں روک سکتے:
Today for religious and political reasons we may not object to cows and buffaloes having the run of the city.
شہری انتظام اور تمدنی امور کو سائنسی تحقیقات کے تابع ہونا چاہیے نہ کہ مذہبی عقائد کے تابع۔ جب بھی ان چیزوں کو مذہبی عقیدہ کے تابع کیا جائے گا، انسانی دنیا میں وہی خرابیاں پیدا ہوں گی جس کا ایک چھوٹا سا نقشہ اوپر کی مثال میں نظر آتا ہے۔
روز نامہ قومی آواز دہلی، لکھنؤاورپٹنہ سے شائع ہوتا ہے۔ اس کے شمارہ ۱۹ جولائی ٍ۱۹۹۱ میں صفحہ اول پر ایک تصویر ہے جس میں ایک امتحان کا منظر دکھایا گیا ہے۔ طلبہ کی نصف تعدا د میز پر ہے اور بقیہ نصف زمین پر بیٹھی ہوئی نقل کرنے میں مصروف ہے۔ پاس ہی دو پولیس مین اور چند نگراں کھڑے ہوئے ہیں۔ تصویر کے نیچے یہ الفاظ درج ہیں: بدھ کو پٹنہ کے ایک مقامی مرکز پر امتحان کے دوران انٹر کے طلبہ پولیس اور نگران کی موجودگی میں کھلے عام نقل کرتے ہوئے (تصویر : یو این آئی)
امتحان میں نقل کرنے کا مرض بہت سی دوسری ریاستوں میں بھی ہے۔ مگر کہا جاتا ہے کہ بہار میں یہ رواج سب سے زیادہ ہے۔ ہندستان میں بیشتر لوگ پڑھتے نہیں، اور جو لوگ پڑھتے ہیں وہ نقل کر کے امتحان پاس کرنا چاہتے ہیں۔ اس بد مذاقی نے علم کا معیار اتنا زیادہ گرا دیا ہے کہ اب پڑھے ہوئے اور بغیر پڑھے ہوئے انسان میں بہت زیادہ فرق باقی نہیں رہا۔
۳۰ جولائی ۱۹۹۱ کو بہار و دھان سبھا نے ایک عجیب قسم کا بل پاس کیا۔ اس کا نام ہے –––––– Bihar Bhoodan Yagya (Amendment) Bill 1991) اس قانون کا تعلق اس پندرہ لاکھ ایکر زمین سے ہے جس کو اچار یہ ونو با بھاوے (۱۹۸۲ - ۱۸۹۵) نے لوگوں سے دان (عطیہ) کے طور پر حاصل کیا تھا۔ ابتدائی قانون میں اچاریہ ونوبا بھاوے کا نام شامل تھا مگر موجودہ ترمیمی قانون میں کسی "ٹکنکل" سبب سے ان کا نام حذف کر دیا گیا ہے۔
میں نے بہار کے بارے میں مختلف اخباروں میں نہایت سخت رپورٹیں پڑھیں۔ بہار میں کرپشن اپنی انتہا پر ہے۔ مجرمین سیاسی لیڈر بنے ہوئے ہیں۔ پوری ریاست فنکشننگ انار کی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ریاستی حکومت کے لیے زیادہ ضروری تھا کہ وہ ریاست سے بدعنوانی کو حذف کرے،ایک کاغذی دستاویز سے ونو با بھاوے کا نام حذف کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
بہار میں لوک سبھا کی ۵۴ سیٹیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر سیٹیں جنتا دل اور اس کے اتحادیوں کو ملی ہیں (جنتا دل کی ۲۸ سیٹ ہیں) اس بار لوک سبھا کے دسویں الیکشن میں کانگرس کو بہار میں صرف ایک سیٹ مل سکی۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ یہاں کے مسلمانوں نے بڑے پیمانہ پر جنتادل کو ووٹ دیا۔
ایک سیاسی مبصر جی ایس راج ہنس کا آرٹیکل ہندستان ٹائمس (۲۲ جولائی ۱۹۹۱) میں چھپا ہے۔ اس کا عنوان ہے –––––– بہار میں کانگریس کا اتنا برا حال کیوں ہوا:
(Why Congress did so badly in Bihar)
اس آرٹیکل میں کانگریس کی ہار کا ایک سبب یہ بتایا تھا کہ جنتا دل کے لیڈر اور چیف منسٹر لالو پرشا دیادو نے بڑی چالاکی سے مسلم کا رڈ کھیلا۔ انھوں نے ایل کے اڈوانی کی رتھ یا ترا بہار میں روک دی اس سے پہلے کہ وہ یوپی میں داخل ہو۔ اس طرح انھوں نے سارے ملک میں مسلمانوں کی احسان مندی حاصل کرلی۔ اس کے بدلے میں بہار کے مسلمان ایک طرف سے لالو پرساد اور ان کی پارٹی کی طرف چلے گئے جب کہ الکشن کا اعلان ہو ا:
Mr Laloo Prasad Yadav played the Muslim card very deftly. He stopped Mr Advani's Rath Yatra in Bihar before it could enter UP and thus earned the gratitude of the Muslims all over the country. In turn, the Muslims of Bihar went all out for Mr Laloo Prasad Yadav and his party when the elections were announced.
رتھ یاترا کے روکنے یا نہ روکنے کا کچھ بھی تعلق مسلمانوں کے حقیقی مسائل سے نہیں ہے۔ یہ تمام تر صرف ایک جذباتی مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ "مسلم کارڈ" کا تصور ہی مسلمانوں کی بے شعوری کی زمین پر پیدا ہوا ہے۔ اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمان اگر اس معاملہ میں حساس ہو جائیں کہ ہمیں صد فی صد تعلیم یافتہ بننا ہے۔ ہم کو جدید صنعتوں میں آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ایک اعلی صحافت پیدا کر نا ہے۔ اگر مسلمانوں کی حساسیت اس طرح کے امور میں ہو تو لیڈروں کے لیے یہ امکان ہی ختم ہو جائے گا کہ وہ الکشن کے موقع پر کوئی شعبدہ دکھا کر مسلم کار ڈ کا کھیل کھیلیں۔ مسلم کا رڈ صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ قوم ظاہر فریب الفاظ پر خوش ہوتی ہو۔ حقیقی اور واقعی عمل پر خوش ہونے والےکبھی کسی کے ہاتھ میں اس قسم کا کارڈ نہیں بنتے۔
۲۷ جولائی کی شام کو پٹنہ کے اردو لائبریری ہال میں پریس کا نفرنس ہوئی۔ اردو، ہندی، انگریزی اخبارات کے نمائندے موجود تھے۔ میں نے اپنے ابتدائی خطاب میں کہا کہ ہمارا مشن فکری بیداری(intellectual awakening) ہے۔ انڈیا ۱۹۴۷ میں آزاد ہو گیا۔ مگر تقریباً پچاس سال کےبعد بھی وہ اب تک ایک ترقی یافتہ ملک نہ بن سکا۔ یہاں کے مسائل گھٹنے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسی آزادی تو حاصل کر لی گئی مگر افراد کے اندر تعمیرِ شعور کا کام بالکل نہیں کیا گیا۔ اس سلسلہ میں مختلف تفصیلات دیتے ہوئے میں نے کہا کہ ذہنی تعمیر کا کام مسلسل اور متواترعمل چاہتا ہے۔ مگر اس نوعیت کی کوئی کوشش ہمارے یہاں ابھر نہ سکی۔ اخبارات یہ کام کر سکتے ہیں۔ مگرہمارے اخبارات کا یہ حال ہے کہ تمام اخبارات کے اوپر سیاست جیسے موضوعات چھائے رہتے ہیں۔تعمیری موضوعات کے لیے ان کے یہاں کوئی کالم نہیں۔
میرے ابتدائی خطاب کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ جاری رہا۔ بابری مسجد سے متعلق سوال کے سلسلہ میں میں نے کہا کہ اس کا حل میرے نزدیک وہی ہے جس کو میں نے نہ صرف اپنے میگزین میں شائع کیا ہے بلکہ مشترکہ میٹنگوں میں پیش کیا ہے اور ہندستان ٹائمس وغیرہ میں بھی اس کو شائع کرایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مورخین کے ایک بورڈ کو بطور ِثالث مقرر کیا جائے اور وہ جو فیصلہ کریں اس کو دونوں فریق بلا بحث مان لیں۔
اگلے دن صبح کو مقامی اردو، ہندی اور انگریزی اخبارات میں اس پریس کانفرنس کی رپورٹ شائع ہوئی۔ ٹائمس آف انڈیا (۲۸ جولائی)نے اپنی رپورٹ کی سرخی میں بورڈ والی تجویز کو نمایاں کیا اور ان الفاظ میں اس کی سرخی قائم کی :
(Historians should resolve Ayodhya issue)
ہندستان ٹائمس (۲۸ جولائی) نے دوسری باتوں کے علاوہ اس تنقید کا بھی ذکر کیا جس کی زد خود اس کے اپنے اوپر بھی پڑتی تھی۔ اس نے لکھا کہ مولانا نے اخباروں سے اپیل کی کہ وہ انسانی دلچسپی کے واقعات کو نمایاں کریں اور ان کو نصیحت کی کہ وہ صرف سیاست میں گم ہو کر نہ رہ جائیں :
The Maulana called upon the media to highlight human-interest stories and exhorted it not to remain obsessed only with politics
۲۸ جولائی کو ڈاکٹر عبدالحی کمرشیل کامپلکس میں درس قرآن کا پروگرام تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جدید طرز پر ایک وسیع بلڈنگ بنائی ہے جو کئی منزلہ ہے۔ اس کی تیسری منزل پر ایک خوبصورت مسجد ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ عمل ایک نمونہ ہے جو بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے قابل تقلید ہے۔ فارسی شاعر نے کہا تھا :
خانہ ٔ شرع خراب است کہ ارباب صلاح در عمارت گریٔ گنبد اسلاف خود اند
مگر ڈاکٹر عبدالحی صاحب نے اپنا گنبد بنانے کے ساتھ خانۂ شرع بنانے کی نہایت عمدہ مثال قائم کی ہے۔ اس مسجد میں ہفتہ وار درس کا باقاعدہ نظام قائم ہے۔ میں نے اپنے درس میں قرآن کی اہمیت اور عظمت پر کچھ باتیں عرض کیں۔ اس کا ٹیپ ان لوگوں کے پاس موجود ہے۔ دوسرے تمام پروگراموں کا بھی ٹیپ لیا جاتا رہا۔
۲۸ جولائی کی شام کو ایک پروگرام سنہا انسٹی ٹیوٹ (اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹڈیز) میں رکھا گیا تھا۔ یہ اجتماع ڈاکٹر ڈی ڈی گرو کی صدارت میں ہوا۔ اس کا عنوان تھا: اسلام اور بقاء ِباہم (Islam and co-existence) اجتماع میں تقریباً ۵۰ فیصد ہندو اور ۵۰ فیصد مسلمان تھے۔
میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ انسانوں کے درمیان پر امن با ہمی بقا، صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ ان کے پاس عمل کے لیے پر امن طریق کار ہو۔ اس کے بعد میں نے بتایا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام قوموں میں اپنے عمل کے لیے صرف تشد دانہ طریقہ (وائلنٹ میتھڈ) کا رواج تھا۔ پیغمبر اسلام نے تاریخ میں پہلی بار غیر متشددانہ طریقہ (نان وائلنٹ میتھڈ) لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس پر عمل کر کے دکھایا کہ پرتشدد طریق کار کے مقابلہ میں بے تشد د طریق کار زیادہ مفید اور زیادہ کار آمد ہے۔ اس سلسلہ میں سیرت کی بہت سی مثالیں پیش کیں۔ آخر میں سوال و جواب ہوااور صدر کی اختتامی تقریر پر کارروائی ختم ہوئی۔
۲۸ جولائی کی شام کو ڈاکٹر عبد الحی کمرشیل کا مپلکس کے ہال میں دوبارہ ایک پروگرام ہوا۔ اس کا عنوان تھا۔"اسلام اور عصری چیلنج"۔ مسٹر ایل دیال آئی اے ایس (سابق چیف سکرٹری) نے صدارت کی۔ اور جناب محمد شفیع قریشی گور نر بہار نے خصوصی مہمان کے طور پر شرکت کی۔
میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جدید سائنس اور جدید علوم کی بنیاد پر اسلام کے لیے جو فکری چیلنج پیدا ہوا وہ اسلام کے لیے کوئی مخالف انقلاب نہ تھا بلکہ ایک مددگار انقلاب تھا۔ مگر جس طرح برسات کے ساتھ کیچڑ آتی ہے۔ اسی طرح اس مفید انقلاب کے ساتھ کچھ نا خوش گوار باتیں بھی شامل تھیں۔ مگر مسلم دانشور اور رہنما اس کے ناخوش گوار پہلوؤں میں الجھ کر رہ گئے، وہ اس کےمفید پہلو کو اسلام کے حق میں استعمال نہ کر سکے۔ مختلف مثالوں کے ذریعہ اس کو واضح کیا۔
۲۹ جولائی کی صبح کو ایوب گرلز کالج میں خواتین اور طالبات سے خطاب کا پروگرام تھا۔ اس کا عنوان تھا" اسلام اور خو اتین " میں نے سادہ انداز میں بتایا کہ اسلام نے عورت کو کتنا زیادہ عزت اور احترام کا مقام دیا ہے۔ اور یہ کہ اسلام کے دائرہ میں رہ کر عورت انتہائی بڑے بڑے کام کرسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں میں نے حضرت ہاجرہ کی مثال تفصیل کے ساتھ پیش کی اور کہا کہ کسی شخص کا یہ قول سب سے زیادہ جس خاتون پر صادق آتا ہے وہ حضرت ہاجرہ ہیں :
There is a woman at the beginning of all great things.
ایوب گرلز کالج کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اس کے منتظمین کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ وہ لوگ غریب خاندان کی لڑکیوں کو خصوصی طور پر اپنے یہاں داخلہ دیتے ہیں اور ان کی ہر طرح مدد کرتے ہیں تاکہ وہ تعلیم یافتہ ہوکر اپنے خاندان کے معیار کو بلند کر سکیں۔ چنانچہ اس کالج میں تقریباً ۵۰ فیصد طالبات غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
پٹنہ میں مجموعی طور پر چھ تقریری پروگرام ہوئے۔ ہر پروگرام میں امید سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد نے شرکت کی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ پٹنہ میں الرسالہ کی دعوت اللہ کے فضل سے کافی پھیل چکی ہے۔ قومی اشو اور" اسلام خطر ےمیں "جیسے نعروں پر بھیڑ جمع کرنا بہت آسان ہے۔مگر راقم الحروف کے پروگراموں میں جو لوگ جمع ہوئے وہ الرسالہ کے تعمیری مشن کے نام پر جمع ہوئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ مشن کی آواز اب لوگوں کے درمیان بذات خود ایک موثر اور قابل لحاظ آواز بن چکی ہے۔
مسٹر ایم ٹی خان (کنوینر) نے کہا کہ ۱۹۸۶ میں جب ہم لوگوں نے آپ کو پٹنہ بلایا تھا، وہ ہمارا پہلا تجربہ تھا۔ اس سے ہم نے کئی سبق لیے ۔ چنانچہ موجودہ سفر میں ہم نے تین نئے پر وگرام رکھے۔ ایک پریس کا نفرنس۔ دوسرے غیرقارئین الرسالہ سےاپر ورچ کرنا، مسلم اور غیرمسلم دونوں سے ہم نے انھیں ہندی، انگریزی اور اردو الرسالہ دے کر آبزرور کی حیثیت سے سمپوزیم میں آنے کی دعوت دی۔ تیسرا پروگرام عورتوں میں خطاب کا انتظام تھا۔ دعوت نامہ کو بھی انھوں نے تعارف کے طور پر استعمال کیا۔ چنانچہ اس موقع پر جو دعوت نامہ چھاپا گیا اس کی پشت پر الرسالہ مشن کے سات اہم نکات لکھے ہوئے تھے۔ ایک یہ تھا:
One's faith in religion should be the outcome of a self-conscious enquiry. Such faith would be reasoned not conditioned, insighted not inherited, rational not traditional.
مذکورہ اجتماعات میں کچھ سوالات کیے گئے جن کا جواب دیا گیا۔ میری قیام گاہ پر بھی پٹنہ اور پٹنہ کے باہر کے افراد بر ابر آتے رہے۔ ان سے سوال و جواب کی صورت میں گفتگو جاری رہی۔ ان سب کو سمپوزیم کے سوال و جواب کے ساتھ یکجا طور پر درج کیا جارہا ہے۔
تا ہم خواہ سوال و جواب کا معاملہ ہو یا تقریر کا معاملہ، ان کی کامیابی کے لیے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ سامع ایک تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت رکھتا ہو۔ اگر سامع کا ذہن تیار نہ ہو تو بولنے والے اور سننے والے کے درمیان ایک فکری بعد (intellectual gap) پیدا ہو جاتا ہے۔ اور جہاں فکری بعد پایا جائے وہاں کسی کو کچھ سمجھانا انتہائی مشکل ہے (لقمان: ۷)
مثلاً اگر کوئی شخص فخر کی نفسیات میں جی رہا ہو تو تواضع کی بات اس کے لیے قابل فہم نہیں ہو سکتی۔ کوئی شخص ظلم کی اصطلاحوں میں سوچنے کا عادی بن گیا ہو تو چیلنج کی اصطلاح میں سوچنا اس کے لیے سخت دشوار ہوگا۔ کوئی شخص اپنے بڑوں کو تنقید سے بالا تر سمجھ لے تو وہ اس پر راضی نہیں ہو سکتا کہ اپنے بڑوں کے کسی اقدام کو غلط ٹھہرائے۔ جہاں متکلم اور سامع کے درمیان اس قسم کا فرق ہو وہاں متکلم کی بات سامع کے لیے اجنبی بن جائے گی۔ اس کے لیے متکلم کی بات کو سمجھنا اسی طرح ناممکن ہو جائے گا جس طرح ایک اردو داں کے لیے روسی یا جاپانی کلام کو سمجھنا۔