تحقیق ضروری
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: «جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ زَوْجِي صَفْوَانَ بْنَ الْمُعَطَّلِ يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ، وَيُفَطِّرُنِي إِذَا صُمْتُ، وَلَا يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ. قَالَ: وَصَفْوَانُ عِنْدَهُ قَالَ: فَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَتْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَمَّا قَوْلُهَا: يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ فَإِنَّهَا تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ، وَقَدْ نَهَيْتُهَا قَالَ: فَقَالَ: لَوْ كَانَتْ سُورَةً وَاحِدَةً لَكَفَتِ النَّاسَ. وَأَمَّا قَوْلُهَا: يُفَطِّرُنِي فَإِنَّهَا تَنْطَلِقُ فَتَصُومُ، وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ فَلَا أَصْبِرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ: لَا تَصُومُ امْرَأَةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا (ابوداؤد،حدیث نمبر۲۴۵۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک صفوان بن معطل ہیں۔ اس درمیان ایک عورت آتی ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتی ہے کہ صفوان بن معطل میرے شوہر ہیں۔ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو وہ مجھ کو مارتے ہیں اور جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ کھلوا دیتے ہیں۔
عورت کے اس بیان کے مطابق، بظاہر عورت صحیح تھی اور اس کا شوہر غلط، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شوہر سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اصل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ صفوان بن معطل چوں کہ مجلس میں موجود تھے، آپ نے عورت کی شکایت کے بارےمیں ان سے دریافت کیا۔
انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، نماز کے لیے مارنے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ دو دو سورتیں پڑھتی ہے، حالاں کہ اس سے میں اس کو منع کر چکا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ہی سورہ کافی ہے۔ پھر صفوان نے کہا کہ، روزہ کھلوانے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلسل روزہ رکھتی ہے اور میں جوان آدمی ہوں، صبر نہیں کر سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر(نفل) روزہ رکھے۔
کسی کے خلاف شکایت کی بات معلوم ہو تو صرف سن کر اس کو نہیں مان لینا چاہیے۔ بلکہ تحقیق کرنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ تحقیق کے بعد شکایت غلط ثابت ہو۔