ترتیب
اونچی عمارتوں میں آٹو میٹک لفٹ لگی ہوتی ہے۔ آپ اس کے اندر داخل ہو کر بٹن دباتے ہیں اور وہ آپ کو آپ کی مطلوبہ منزل پر پہنچا دیتی ہے۔
فرض کیجیے کہ چار آدمی بیک وقت لفٹ کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ آپ کو دوسری منزل پر جانا ہے، اور بقیہ لوگ دسویں اور گیارھویں منزل پر جانے والے ہیں، اب اگر دوسرے لوگ پہلے اپنے نمبر والابٹن دبا دیں اور آپ اپنا نمبر بعد کو دبائیں تو ایسا نہیں ہو گا کہ اس بنا پر لفٹ پہلے اوپر چلی جائے اور بقیہ لوگوں کو دسویں اور گیارھویں منزل پر اتارے۔ اور اس کے بعد نیچے آکر آپ کو دوسری منزل پر پہنچائے۔ بٹن دبانے کی بے ترتیبی کے باوجود ایسا ہوگا کہ لفٹ پہلے دوسری منزل کے مسافر کو اس کی مطلوبہ منزل پر اتارے گی۔ اس کے بعد وہ اوپر کی منزلوں پر جائے گی۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بٹن دبانے کی بے ترتیبی کو وہ از خود کس طرح باترتیب بنا لیتی ہے۔ اس کا جواب کمپیوٹر ہے۔ جدید طرز کی لفٹ میں کمپیوٹر لگا ہوا ہوتا ہے، یہ کمپیوٹر ایک قسم کے مشینی دماغ کی مانند کام کرتا ہے۔ وہ بٹن دبانے کی بے ترتیبی کو منزل کی ترتیب میں بدل دیتا ہے اور لفٹ کو "حکم" دیتا ہے کہ منزل کی اصل ترتیب کے اعتبار سے مسافروں کو اوپر لے جائے۔
آٹومیٹک لفٹ خدا کی ایک ادنی مخلوق ہے۔ جب خدا کی ایک ادنی مخلوق میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ مصنوعی ترتیب کو صحیح ترتیب کی صورت میں بدل دے تو یہ طاقت خود خالق کے اندر کتنی زیادہ ہوگی۔ بلاشبہ خالق کے اندر وہ صفت آخری کمال درجہ میں ہے جو آٹو میٹک لفٹ میں صرف معمولی ابتدائی درجہ میں پائی جاتی ہے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں انسان کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر لوگوں نے اپنا نام مصنوعی ترتیب کے ساتھ لکھ لیا ہے، کوئی تیسرے درجہ کا آدمی ہے،مگر اس نے اپنا نام نمبر ایک پر لکھوا رکھا ہے، کوئی نچلی سطح پر بٹھائے جانے کے قابل ہے مگر اس نے اپنے آپ کو اونچی سطح پر بٹھا رکھا ہے۔ کوئی ہے جو سرے سے ذکر کے قابل نہیں مگر وہ مصنوعی طور پر شہرت کے اسٹیج پرجگہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ آخرت میں یہ تمام غلط ترتیب درست کر دی جائے گی۔ اس کے بعد ادنی درجہ کا آدمی ادنی سیٹ پر پہنچا دیا جائے گا اور اعلیٰ درجہ کا آدمی اعلیٰ سیٹ پر۔