سجدهٔ فطرت

اس صفحہ کے نیچے ایک تصویر دی جارہی ہے۔ اس میں ایک آدمی "سجدہ " کی حالت میں نظر آتا ہے۔ مگریہ مسجد کا یا نماز کا سجدہ نہیں ہے بلکہ فطرت کا سجدہ ہے۔ یہ ہندستانی پارلیمنٹ کے نئے ممبر سباش چندرنا یک ہیں۔ ۹ جولائی ۱۹۹۱ کو جب وہ پہلی بار پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو اس کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے ان کے اندر غیر معمولی طور پر احترام کا جذبہ ابھرا۔ وہ بے تابانہ طور پر پارلیمنٹ کے سامنے سجدہ کی مانند گر پڑے۔

سجدہ کی حالت آخری سپردگی کی حالت ہے۔ انسان کے اندر جب کسی چیز کے لیے  تسلیم وسپردگی کا جذبہ کامل طور پر پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اس چیز کے آگے ڈال دینا چاہتا ہے، اس وقت اس کا جسمانی وجود جس آخری حالت میں ڈھل جاتا ہے وہ یہی سجدہ ہے۔ سجدہ کی حالت سپردگی کی آخری حالت ہے، اس کے بعد عملی سپردگی کا اور کوئی درجہ نہیں۔ سجدہ کی حالت میں اپنے آپ کو پہنچا کر انسان اس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو آخری حد تک حوالہ کیے جانے والے کے آگے حوالہ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی انسان کے اندر کامل سپردگی کی خواہش ابھرتی ہے تو وہ فور اً سجدہ

Mr Subash Chandra Nayak, Congress MP from Orissa, a first timer in the Lok Sabha, kneels down in symbolic respect to Parliament House, on Tuesday. -TOI

کی حالت میں گر جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال مذکورہ واقعہ ہے۔

 مطبوعہ تصویر ٹائمس آف انڈیا (۱۰ جولائی ۱۹۹۱) کے فوٹو گرافر نے دسویں لوک سبھا کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر کھینچی تھی۔ اس دن اسپیکر کی جانب سے نو منتخب ممبران کو حلف دلا کر دسویں لوک سبھا کی با ضابطہ تشکیل کی گئی تھی۔ لوک سبھا میں ۵۰۷ منتخب شدہ ممبر ہیں۔ ان میں سے آدھے ممبران نئے ہیں۔ انھیں میں سے ایک مسٹر سباش چندر نا یک ہیں۔ وہ جب نئی دہلی کے پر عظمت پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچے اور اس میں داخل ہونے لگے تو وہ واقعہ گزرا جس کو اخباری رپورٹر کے کیمرہ نے ریکارڈ کر لیا۔ پارلیمنٹ کے عظمت و تقدس کا احساس ان پر اس طرح طاری ہو اکہ وہ اس کے آگے سجدہ میں گر پڑے۔

"سجدہ" انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کا پورا وجود اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ کسی کے آگے سجدہ میں گر جانا چاہتا ہے۔ آدمی کے اندر فطری طور پر یہ احساس چھپا ہوا موجود ہے کہ" تو بڑا ہے، میں چھوٹا ہوں" یہ اندرونی احساس جب شدت اختیار کر کے ظاہری ہیئت میں ڈھل جائے تو اسی کا نام سجدہ  ہے۔

قرآن میں ارشاد ہو اہے کہ میں نے جن اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے  بنایا ہے (الذاریات: ۵۶) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر عبادت اور سجدہ گزاری کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے وہ اصلاً  خالق کے لیے  ہے۔ اس کا صحیح استعمال یہ ہے کہ آدمی خداوند رب العالمین کا ساجد بن جائے۔ مگر جو لوگ خدا کو پائے ہوئے نہ ہوں وہ اپنی بے خبری کی بنا پر کسی غیر خدا کے سجدہ گزار بن جاتے ہیں۔

 اس واقعہ سے مزید یہ بات معلوم ہوئی کہ توحید کی دعوت ایک ایسی دعوت ہے جس کا آدھا مرحلہ پہلے ہی طے ہو چکا ہے۔ انسان اپنی پیدائشی فطرت کے تحت پیشگی طور پر اپنے اندر یہ آمادگی لیے  ہوئے ہے کہ وہ کسی بر تر ہستی کے آگے اپنے آپ کو جھکا دے۔ اب داعیان حق کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ انسان کو یہ بتا دیں کہ تمہاری فطرت جس ہستی کے آگے جھکنا چاہتی تھی وہ ہستی در اصل تمہارا خالق ہے۔

 اس معاملے میں فارسی شاعر کایہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے کہ جنگل کے تمام ہرن اپنا سر ہتھیلی پر لیے  ہوئے اس انتظار میں ہیں کہ تو آئے اور ان کا شکار کرے:

ہمہ آہو ان صحرا سر خود نہاده بر کف     بہ امید آنکہ روزےبہ شکار خواہی آمد

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom