ایک آزمائش

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے کسی کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے (الاحزاب: ۴) اس سے انسان کی ایک پیدائشی کمزوری معلوم ہوتی ہے۔ وہ کمزوری یہ ہے کہ انسان بیک وقت دو چیزوں پر دھیان نہیں دے سکتا۔ آدمی صرف ایک چیز کو اپنا مرکزِ توجہ بنا سکتا ہے۔ جب بھی وہ ایک چیز پرفوکس کرے گا تو دوسری چیزیں لازمی طور پر اس کے لیے فوکس سے باہر (out of focus) ہو جائیں گی۔

 انسان کی یہ صفت انسان کے لیے ایک بے حد نازک آزمائش ہے۔ اپنے حالات یا اپنے ذوق کے لحاظ سے وہ ایک چیز کو اختیار کر تا ہے۔ اس کے ایک قلبی مزاج کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ وہی ایک چیز اس کو ساری چیز نظر آنے لگتی ہے۔ بقیہ چیزیں، خارجی طور پر موجود ہوتے ہوئے بھی، اس کے اپنے علم میں غیر موجود ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنی اس سوچ میں پختہ ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اسی ایک چیز کو وہ سب سے اعلی چیز سمجھ لیتا ہے جس پر ابتد اء ً  اس نے اپنی نظروں کو جمایا تھا۔

 یہ ایک نازک صورت حال ہے جس میں ہر انسان مبتلا ہے۔ اپنے فطری مزاج کی بنا پر چونکہ دوسری چیزیں آدمی کے فوکس میں نہیں ہو تیں اس لیے بقیہ چیزوں کی حیثیت اس کے نزدیک ایسی ہو جاتی ہے گویا کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ شاید ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔

 انسان کی اس پیدائشی ساخت کی بنا پر اس کے اندر وہ کمزوری پیدا ہوتی ہے جس کے متعلق قرآن میں کہا گیا ہے کہ شیطان نے لوگوں کے لیے ان کے کاموں کو ان کی نظر میں خوب صورت بنا دیا ہے (النحل: ۶۳) اسی طرح فرمایا کہ لوگ نا پسندیدہ کام میں مشغول ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں (الکہف: ۱۰۴) دوسری جگہ فرمایا کہ لوگ دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں اور پھر بطور خود اس کے کسی جزء کو لے کر خوش ہوتے ہیں کہ وہ اصل دین کو پکڑے ہوتے ہیں (الروم:۳۲)

 کسی انسان کے ساتھ اس قسم کی تباہ کن صورت حال کیوں پیش آتی ہے۔ اس کا سبب اس کی یہی مزاجی کیفیت ہے۔ وہ جب ایک بار کسی چیز کو اپنا لیتا ہے تو اس کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس ایک چیز کے علاوہ دوسری تمام چیزیں اپنے آپ اس کے لیے اوجھل (آؤٹ آف فوکس) ہو جاتی ہیں۔ وہ موجود ہوتے ہوئے بھی اس کے اپنے لیے ایسی بن جاتی ہیں گویا کہ وہ موجود ہی نہ ہوں۔

اب آدمی کی ساری دل چسپی اس کی اپنی اختیار کردہ چیزسے ہو جاتی ہے۔ اپنی مخصوص نفسیات کی بنا پر وہ اس فرضی یقین میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ معاملہ کا سرا پکڑے ہوئے ہے۔ حالانکہ اس کے ہاتھ میں صرف ایک بے حقیقت تنکا ہوتا ہے جو طوفان کے پہلے ہی جھٹکے میں اس سے جدا ہو جائے۔

 اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ ہر انسان اپنے شاکلہ پر عمل کرتا ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون شخص زیادہ صحیح راستہ پر ہے (الاسراء: ۸۴ ) اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے ذاتی شاکلہ میں اپنے آپ کو پوری طرح بر سرِ حق سمجھے مگر وہ اللہ کے نزدیک بر سرِ حق نہ ہو۔ ایسے لوگ آخرت میں بے حقیقت ہو کر رہ جائیں گے۔

انسان کی یہ پیدائشی کمزوری جس طرح عام انسانوں کے لیے فتنہ ہے اسی طرح وہ امت مسلمہ کے افراد کے لیے بھی فتنہ ہے۔  امت مسلمہ کا معاملہ اس عام آز مائش سے مستثنی نہیں مسلمانوں کے درمیان بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ دین کے ایک پہلو کو لے کر اس کو اپنا مرکز توجہ بنائیں، اور پھر دین کے دوسرے تمام تقاضے ان کے فوکس سے باہر نکل جائیں۔ ایسے لوگوں کا سارا دھیان بس ایک چیز پر جم کر رہ جائے گا۔

 قرآن وحدیث کے معیار کے مطابق، وہ ایک خود ساختہ دین پر ہوں گے۔ مگر اپنے ذاتی ذہن کے اعتبار سے وہ یہی خیال کریں گے کہ وہ کامل حق پر ہیں، کیونکہ ان کا ذہن انھیں بتا رہا ہو گا کہ انھوں نےدین کے سب سے اہم حصہ کو پکڑ رکھا ہے۔

 یہ ایک انتہائی نازک آزمائش ہے جس میں ہر شخص مبتلا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن کے الفاظ ہر ایک کو یہ چیتا ونی دے رہے ہیں کہ–––––  کہو کیا میں تم کو آگاہ کروں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون لوگ ہیں۔ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں اکارت ہو گئی۔ اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر ر ہے ہیں (الکہف:۱۰۴)

 اس امتحان سے بچنے کا واحد ذریعہ احتساب خویش ہے۔ یعنی اپنے مزاج کو کسوٹی نہ سمجھنا  بلکہ قرآن و سنت کو دین کی کسوٹی قرار دے کر اپنے آپ کو اس پر جانچتے رہنا۔ جو آدمی اس طرح اپنا بے رحمانہ احتساب نہ کرے وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں مبتلا کر رہا ہے کہ آخرت میں اس پر کھلے کہ وہ محض ایک خود ساختہ دین پر تھا، اگر چہ نادانی کی بنا پر وہ اپنے آپ کو خدا کےمطلوب دین پرسمجھتا رہا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom