مجازی اسلوب

اقبال کہتے ہیں کہ قضاوقدر (خدا) نے مجھ سے کہا کہ کیا ہماری دنیا تمہارے لیے سازگار ہے۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ کہا کہ پھر اس کو توڑ دو :

گفتند جہانِ  ما آیا تبو می سازد    گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ بر ہم زن

اسی طرح اقبال کا ایک شعر ہے:

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے               جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

 بظاہر ان اشعار کا مطلب یہ ہے کہ اقبال اور خدا کے درمیان گفتگو ہوئی۔ یا جبرئیل فرشتہ نے براہ راست اقبال سے کلام کیا۔ مگر جو آدمی ان اشعار کو اس طرح بالکل لفظی معنی میں لینے لگے اس کو اقبال کا جواب ہو گا کہ : شعر مرا بمدرسہ کہ برد۔

 یہ اشعار اور اس طرح کے بے شمار منثور اور منظوم کلام مجازی اسلوب میں ہیں نہ کہ حقیقی اسلوب میں۔ یہ اپنے ایک احساس کو واقعہ کی زبان میں بیان کرنا ہے، یہ اپنی ایک داخلی واردات کو اس طرح ظاہر کرنا ہے گویا کہ وہ خارجی دنیا میں پیش آئی تھی۔

 یہ ایک معروف اسلوب ہے اور وہ اس لیے اختیار کیا جاتا ہے تاکہ ایک طرف متکلم کے یقین کا اظہار ہو، اور دوسری طرف اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخاطب پر زیادہ سے زیادہ اثر ڈالا جا سکے۔ مولانا روم کی پوری مثنوی اسی اسلوب میں ہے۔ بزرگانِ دین کا بیشتر کلام اس اسلوب سے بھرا ہوا ہے۔ ماضی اور حال کے تمام اکابر کے یہاں اس اسلوب کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔

 مثلاً ایک کہنے والا اگر یہ کہے کہ" میں نے خدا کو دیکھا۔ میں نے خدا کو چھوا " تو وہ شخص بڑا نادان ہو گا جو ان الفاظ کو بالکل حقیقی معنی میں لے کر اس پر فتویٰ صادر کرنے لگے۔

 اس قسم کا ہر کلام مجازی اسلوب کلام ہے۔ یہ دراصل انسانی زبان میں اپنے یقین کا اظہار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے خدا کے بارے میں اس یقین کا تجربہ ہوا جو کسی چیز کو دیکھنے سے ہوتا ہے۔ کسی چیز کو چھونے سے اس کی موجودگی کا جو احساس ہوتا ہے اسی طرح میں نے خدا کی موجودگی کا احساس کیا۔ بالفاظ دیگر  –––––گویا کہ میں نے خدا کو دیکھا، گویا کہ میں نے خدا کو چھوا۔ گویا کہ میں نے خدا کو موجود پایا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom